تفریح کی ضرورت
سامراجی طاقتوں کی برابر یہ کوشش رھتی ہے کہ کس طرح سے فکری صلاحتیوں کو سلب کر کے ، ان کو ارادہ و اختیار سے محروم کر کے ان کی تقدیر کو اپنے ھاتھوں میں لے لیا جائے تاکہ وہ اپنے بارے میں خود کوئی فیصلہ نہ کر سکیں اور اپنے اچہے و بُرے کی تمیز نہ کر سکیں۔ ہم جس طرح سے چاھیں ان کو استعمال کریں، جس چیز کو ہم اچھا کھیں اسی کو وہ بھی اچھا سمجھیں اور جس کو ہم براکھیں اسی کو وہ بھی برا سمجھیں۔
معاشرے کو تباہ و بر باد کر نے کا ایک موثر ترین ذریعہ لوگوں کے” فاضل وقت “ پر قبضہ کر لینا ہے اور اس کو اپنے حسب منشا بسر کرانا ہے ۔ آج کی دنیا نے انسان کے ” فاضل وقت “ بسر کرنے کے سلسلے میں جو پروگرام پیش کئے ھیں اور جس طرح سے لوگوں کو اس میں منہمک کیا ہے وہ نھایت اہم ہے ۔ سامراجی طاقتوں نے ” فاضل وقت “ بسر کرنے کے لئے آزادی ، عیش و نوش ، شباب و شراب کے وسائل اتنے زیادہ عام کر دیئے ھیں جس سے جوانوں کی قوت ارادی سلب ھو کر رہ گئی ہے ۔ وہ حیوانیت کی راہ میں اتنا زیادہ آگے نکل گئے ھیں کہ دور دورتک انسانیت کے خد و خال نظر نھیں آتے ۔
تفریح زندگی کاایک اہم مسئلہ ہے ۔
تفریح کی ضرورت فطری ہے جس کو زندگی کے ھر دور میں پورا ھونا چاھئے ۔ اس ضرورت کے پورا ھونے سے انسان کو کیف اور خوشی محسوس ھوتی ہے ۔
جس قدر اجتماعی خدمتیں ، تحصیل علوم کی زحمتیں اور فکری نششتیں زیادہ ھوں گی تفریح کی ضرورت اتنی ھی زیادہ شدید ھو گی کیونکہ اس طرح کے کام کرنے سے اعصاب تھک جاتے ھیں ۔ تفریح ان کو آرام دیتی ہے، قوت عطا کرتی ہے اور پھر سے محنت کرنے پر آمادہ کرتی ہے ۔
زندگی کے اس اہم مسئلہ کونظرانداز کرنے سے خطر ناک نتائج بر آمد ھوتے ھیں ،کیونکہ اگر مفید تفریح کے وسائل مھیا نہ ھوں تو لوگ خطرناک تفریحوں کے عادی ھو جاتے ھیں ، پھرایک بری عادت دوسری خراب عادتوںکے لئے زمین ہموار کرتی ہے ۔
تفریح اسلام کی نظر میں
اسلام نے جھاں تمام روحانی اور جسمانی تقاضوں کا حل پیش کیا ہے وہاں اس فطری ضرورت کوبھی نظر انداز نھیں کیا ہے ۔ حضرت امام علی رضا عليہ السلام نے فرمایا : ” دنیا کی لذتوں سے اپنے لئے بھی ایک حصہ مخصوص رکھو ۔ اپنی جائز ضرورتوں کو پورا کرو تاکہ تمھاری شجاعت اور شخصیت متاثر نہ ھو۔ اسراف اور شدت پسندی سے دور رھو۔ ان چیزوں کے ذریعہ دنیاوی امور میں مدد حاصل کرو “۔ (1)
تفریح کی فطری ضرورت اگر دوسری فطری ضرورتوں کی طرح کنٹرول نہ کی جائے تو اس کے اثرات یقینا خطر ناک ھوں گے اسی لئے حضرت نے فرمایا کہ :”یہ وسائل ایسے نہ ھوں جو انسان کی واقعی شخصیت اور شجاعت پر اثر انداز ھوں ۔ انسان کو مفید اور مضر تفریحوں میں فرق کرنا چاھئیے ۔ “
حضرت امیر المومنین عليه السلام نے تفریح کو مومنین کے روز آنہ کے معمول میں قرار دیا ہے ،آپ نے فرمایا : ” مومنین کے دن کو تین حصوں میں تقسیم ھونا چاھئے ۔ ایک حصہ خدا وند عالم سے راز و نیاز عبادت کے لئے ، ایک حصہ معاشی امور کی اصلاح اور ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لئے اور ایک حصہ حلال اور نیک چیزوں سے لطف اندوز ھونے کے لئے “ ۔(2)
مفید اور مضر تفریحیں
یہ بات بیان کی جاچکی ہے کہ تفریح انسان کی فطری ضرورت ہے ۔ اس کو جائز اور حلال ذرائع سے پورا ھونا چاھئے۔ اس کے لئے سب سے پھلے یہ ضروری ہے کہ ہم مفید اور مضر تفریحوں کو پھچانیں تاکہ تفریح کے لمحات گمراھی اور شخصیت کے منافی امور کی نذر نہ ھونے پائیں ۔
تفریح کو روحانی اور جسمانی قوتوں کی تقویت کا ذریعہ ھونا چاھئے جس کے ذریعہ انسان کو تازگی کا احساس ھو ، روح شاداب ھو اور انسان برائی کے راستوں پر چلنے سے محفوظ رہے ۔ جن تفریحوں میںاس احساس کے بجائے روح اور زیادہ مضطرب ھو جائے ،جسم کو اور زیادہ تھکن کا احساس ھونے لگے، انسان فحشاء اور برائیوں کے راستہ پر چلنے لگے بلکہ ان کو عام کرنے لگے تو ان امورکو درحقیقت تفریح کانام نھیں دیاجاسکتااور انسان کو ایسی تفریحوں سے اجتناب چاھئے کیونکہ تفریح صرف دل بھلانے کاوسیلہ نھیںہے بلکہ یہ انسان کی جسمانی ، روحانی، انفرادی اور اجتماعی صحت و سلامتی کاایک اہم ذریعہ ہے اور جس تفریح میںیہ اثر نہ پایا جاتا ھو اس کو تفریح نھیں کھا جا سکتا ہے ۔
اگر ہمارا معاشرہ غور و فکر سے کام لیتا تو حیوانوں کی طرح خطرناک تفریحی مراکز یا اخلاقیات کے مقتل کی طرف اس طرح نہ ٹوٹتااور اپنی انسانیت کے گراں بھا گوھر کو اس طرح مفت ضائع نہ کرتا ۔
حضرت علی عليه السلام نے ارشاد فرمایا :
” وہ لذت جس سے شرمندگی حاصل ھواور وہ شھوت و خواھش جس سے درد میں اضافہ ھو اس میں کوئی خیر نھیں ہے “ (3)
گر معاشرہ نیکیوں کا طلب گا رہے تو اسے حضرت عليه السلامکے قول پر غور و فکر کرتے ھوئے دور اندیشی کے ساتہ اپنے کام کے نتائج کودیکھنا ھو گا ۔ اسے غور کرنا ھو گا کہ وقتی خواھشات کے نتائج کیا بر آمد ھو سکتے ھیں ۔ وہ تفریحیں جو اس وقت بھلی معلوم ھوتی ھیں وہ آئندہ کن کن خرابیوں اور تباھیوں کا پیش خیمہ بن سکتی ھیں ۔ اس طرح کی تمام تفریحوں سے اس کو حد درجہ پرھیز کرنا ھو گا ۔
حضرت علی نے ارشاد فرمایا :
” مجہے اس شخص پر تعجب ہے جو لذتوں کے خطرناک نتائج سے واقف ھوتے ھوئے بھی عفت و پاکدامنی کا راستہ اختیار نھیں کرتا ۔ “ (4)
مناسب ہے کہ یھاں پر کچھ” مفید تفریحوں“ کا ذکر کیا جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)بحار طبع جدید ج78 ص 346
(2) نھج البلاغہ کلمات قصار شمارہ 382
(3) غرر الحکم ص354
(4) غرر الحکم ص 218