حدیث غدیر
غدیر کا نام تو ہم سبھی نے سنا ہے، یہ سرزمین مکہ اورمدینہ کے درمیان، مکہ شہر سے تقریبا دوسو کلومیٹر کے فاصلے پر جحفہ کے پاس واقع ہے ۔یہ ایک چوراہا ہے ۔مختلف سرزمینوں سے تعلق رکھنے والے حجاج کرام یہاں پہونچ کرایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں۔ یہاں سے شمالی سمت کا راستہ مدینہ کی طرف ،جنبوبی سمت کا راستہ یمن کی طرف ،مشرقی سمت کا راستہ عراق کی طرف اور مغربی سمت کا راستہ مصر کی طرف جاتا ہے ۔
آج کل یہ سرزمین بھلے ہی متروک ہو چکی ہو مگر ایک دن یہی سرزمین تاریخ اسلام کے ایک اہم واقعہ کی گواہ تھی اوریہ واقعہ اٹھارہ ذی الحجہ 10 ھ کاہے جس دن حضرت علی علیہ السلام رسول اکرم کے جانشین کے منصب پر فائز ہوئے ۔
مگر افسوس ہے کہ ماضی میں تو خلفاء ، تاریخ کے اس عظیم واقعہ کو مٹانے کی کوششیں کرتے رہے ور آج کچھ متعصب افراد اس کو مٹانے یا کم رنگ کرنے کی فکر میں لگے ہیں۔لیکن یہ واقعہ تاریخ ،حدیث اور عربی ادب میں اتنا رچ بس گیا ہے کہ اس کو چھپا نا اور مٹا نا ناممکن ہے۔
اس کتابچہ میں غدیر کے بارے میں ایسی ایسی سندیں اور اور حوالے موجود ہیں کہ آپ ان کو دیکھ کر دنگ رہ جائیں گے۔ جس واقعہ کے لئے اتنی زیادہ دلیلیں اور سندین موجود ہوں وہ کسی طرح بھی عدم توجہ یا پردہ پوشی کا شکار نہیں ہوسکتا ۔
امید ہے کہ یہ منطقی تحلیل اور تمام سندیں جو اہل سنت کی کتابوں سے لی گئی ہیں مسلمانوں کی مختلف جماعتوں کو ایک دوسرے سے قریب کرنے کا ذریعہ بنیں گی اور ماضی میں لو گ جن حقائق سے سادگی کے ساتھ گذر گئے ہیں وہ اس دور میں سب کی توجہ کا مرکز بنیں گے خاص طور پر جوان نسل کی ۔
حدیث غدیر:
حدیث غدیر امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی بلا فصل ولایت و خلافت کے لئے ایک روشن دلیل ہے اور محققین اس حدیث کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
لیکن افسوس کا مقام ہے کہ جو لوگ آپ کی ولایت سے پس و پیش کرتے ہیںوہ کبھی تو اس حدیث کی سندکو زیر سوال لاتے ہیں اور کبھی اس حدیث کی سند کو قبول کرتے ہوے ٴ اس کی دلالت میں تردید کرتے ہیں ۔
لہذا ضروری ہے کہ اس حدیث کی حقیقت کو ظاہر کرنے کے لئے سند اور دلالت کے بارے میں معتبر حوالوں کے ذریعہ بات کی جائے ۔