دینی حالت
عھد جاھلیت کے دوران ملک عرب میں بت پرستی کا عام رواج تھا اور لوگ مختلف انداز میں اپنے بتوں کی پوجا کرتے تھے اس زمانہ میں کعبہ مکمل بت خانہ میں تبدیل ھوچکا تھا جس میں تین سو ساٹھ سے زیادہ اقسام اور مختلف شکل و صورت کے بت رکھے ھوئے تھے اور کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جس کا بت وھاں موجود نہ ھو حج کے زمانے میں ھر قبیلے کے لوگ اپنے بت کے سامنے کھڑے ھوتے اس کی پوجا کرتے اور اس کو اچھے ناموں سے پکارتے تھے۔
ظھور اسلام سے قبل یھود و نصاریٰ بھی جو کہ اقلیت میں تھے، جزیرہ نما عرب میں آباد تھے یھودی اکثر شمال عرب کے گرد و نواح کے علاقوں، مثلاً یثرب، وادی القریٰ، تیما، خیبر و فدک میں رھا کرتے تھے جب کہ عیسائی نواح جنوب میں یمن اور نجران جیسی جگھوں پر بسے ھوئے تھے۔
انھی میں چند لوگ ایسے بھی تھے جو وحدانیت کے قائل اور خداپرست تھے اور وہ خود کو حضرت ابراھیم (ع) کے دین کے پیروکار سمجھتے تھے مورخین نے ان لوگوں کو حنفاء کے نام سے یاد کیا ھے۔
جب حضرت محمد مصطفی (ص) پروحی نازل ھوئی اس وقت عرب میں مذھب کی جو حالت و کیفیت تھی اسے حضرت علی (ع) نے اس طرح بیان کیا ھے:
۔۔۔ ۔ ۔ و اٴھل الارض یومئذ ملل متفرقة و اھواء منتشرة و طرایق متشقة بین مشبہ للہ بخلقہ او ملحد فی اسمہ او مشیر الیٰ غیرہ فھداھم بہ من الضلة و انقذھم بمکانہ من الحبالة۔
اس زمانے میں لوگ مختلف مذاھب کے ماننے والے تھے ان کے افکار ایک دوسرے کی ضد اور طریقے مختلف تھے بعض لوگ خدا کو مخلوق سے مشابہ کرتے تھے، (ان کا خیال تھا کہ خدا کے بھی ھاتہ پیر ھیں اس کے رھنے کی بھی جگہ ھے اور اس کے بچے بھی ھیں) وہ خدا کے نام میں تصرف بھی کرتے تھے اپنے بتوں کو خدا کے مختلف ناموں سے یاد کرتے تھے مثلاً: لات کو اللہ، عزیٰ کو عزیز اور منات کو منان، کے ناموں سے یاد کرتے (۲) بعض لوگ خدا کے علاوہ دوسری اشیاء کو بھی پوجتے تھے بعض لوگ دھریئے تھے اور صرف فطرت حرکات فلکیہ اور گردش زمان ھی کو خود پر موثر سمجھتے تھے۔
خداوند تعالیٰ نے پیغمبر کے ذریعہ انھیں گمراھی سے نجات دلائی اور آپ کے وجود کی برکت سے انھیں جھالت کے اندھیرے سے باھر نکالا۔
جب ھم بت پرستوں کے گوناگوں عقائد کا مطالعہ کرتے ھیں اور ان کا جائزہ لیتے ھیں تو اس نتیجے پر پھونچتے ھیں کہ انھیں اپنے بتوں سے ایسی زبردست عقیدت تھی کہ وہ ان کے خلاف ذرا سی بھی توھین برداشت نھیں کرسکتے تھے اسی لئے وہ حضرت ابو طالب(ع) کے پاس جاتے اور پیغمبر کی شکایت کرتے اور کھتے کہ وہ ھمارے خداوٴں کو برا بھلا کھہ رھے ھیں اور ھمارے دین و مذھب میں برائیاں نکال رھے ھیں(۴) وہ وجود خدائے مطلق و خالق اور پروردگار کے معتقد و قائل تو تھے اور اللہ کے نام سے اسے یاد کرتے تھے مگر اس کے ساتھ ھی وہ بتوں کو تقدس و پاکیزگی کا مظھر اور انھیں قابل پرستش سمجھتے تھے وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ بت ان کے معبود تو ھیں مگر ان کے خالق نھیں چنانچہ یھی وجہ تھی کہ جب رسول خدا ان سے گفتگو فرماتے تو یہ ثابت کرتے تھے کہ خداوند تعالیٰ ان کا خالق ھے بلکہ ثبوت و دلائل کے ساتھ یہ فرماتے کہ خدائے مطلق واحد ھے اور ان کے بنائے ھوئے معبودوں کی حیثیت و حقیقت کچھ بھی نھیں ھے۔
قرآن مجید نے مختلف آیات میں اس امر کی جانب اشارہ کیا ھے یھاں اس کے چند نمونے پیش کئے جاتے ھیں:
لئن سالتھم من خلق السموات و الارض لیقولنّ اللہ۔
(ان لوگوں سے اگر تم پوچھو کہ زمین اور آسمان کو کس نے پیدا کیا ھے؟ تو یہ خود کھیں گے ”اللہ نے“)
ما نعبد ھم الا لیقربونا الیٰ اللہ زلفیٰ۔ (ھم تو ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ھیں کہ وہ اللہ تک ھماری رسائی کرادیں، اس کے علاوہ وہ بت پرستی کی یہ بھی تعبیر پیش کرتے تھے)