• صارفین کی تعداد :
  • 3746
  • 12/22/2007
  • تاريخ :

کفار قريش اور مسلمانوں کے درميان بدر کے مقام پر پہلي لڑائي

لاله قرمز

قریش مکہ نے جب دیکھا کہ مدینہ میں مسلمان مضبوط ہورہے ہیں اوراسلام پھلنا پھولنا شروع ہوگیا ہے تو انہوں نے اس کو روکنے کے لئے تدبیریں سوچنا شروع کردیں ۔ مسلمانوں اور قریش مکہ کے درمیان پہلا معرکہ بدر کے مقام پر پیش آیا ۔جس میں کم تعداد میں ہونے اور آلات حرب کی کمی کے با وجود مسلمانوں کوکفار پرفتح حاصل ہوئی ۔ سنہ 2 ہجری میں ہونے والی جنگ بدر کافروں کے ساتھ مسلمانوں کی پہلی جنگ تھی ۔ اعلان نبوت کے بعد مکہ میں تیرہ سال تک مسلمان سخت مشکلات اور کسمپرسی کی حالت میں رہے اور قریش کی اذیتیں اتنی بڑھیں کہ انہیں بے سروسامانی کے عالم میں ہجرت کرنے پرمجبور کردیا ۔ تیرہ سال مکہ میں زحمتیں برداشت کرنے کے بعد جب آنحضرت (ص) مدینہ میں آئے تو پھر بھی قریش نے اذیتوں کا سلسلہ بند نہ کیا ۔ جن مسلمانوں نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی قریش مکہ نے ان کے مال و اسباب پر قبضہ کرلیا  صرف اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ ہجرت سے پہلے مدینہ کے رئیس عبداللہ بن ابی کے نام ایک خط لکھا جس میں کہا گیا کہ: تم نے ہمارے آدمیوں کو اپنے ہاں پناہ  دی ہے ہم اپنے خدا کی قسم کھاتے ہیں کہ یا توتم لوگ انہیں قتل کرڈالویا مدینہ سے نکال دو  ورنہ ہم سب لوگ تم پر حملہ کردیں گے اور تم کو فنا کر کے تمہاری عورتوں پر تصرف کرلیں گے ۔ حضور (ص) کو جب اس بات کا علم ہوا تو آپ (ص) نے عبداللہ بن ابی کو سمجھایا کہ انصار مسلمان ہوچکے ہیں اوراس مخالفت میں تم خود اپنے بیٹوں اوربھائیوں سے لڑوگے ۔ اس کی سمجھ میں یہ بات آگئی اوراس نے قریش کا مطالبہ ماننے سے انکار کردیا ۔ سنہ 3 ہجری کے اوائل میں مکہ کے ایک سردار کرزبن جابر فہری نے مدینہ کی چراگاہ پر حملہ کیا اور مسلمانوں کے مویشی لوٹ کرلے گیا ۔ اسی زمانے میں قریش کا ایک قافلہ ابوسفیان کی سرکردگی میں تجارت کے لئے شام گیا ہوا تھا ۔ اس قافلے کو واپسی پر اسی راستے سے گزرنا تھا اس میں وہ اموال بھی شامل تھے جنہیں مکہ میں مہاجرین سے زبردستی چھین لیا گیا تھا ۔ آنحضرت (ص) نے اصحاب کوحکم دیاکہ وہ اس قافلے کوروک کر اپنا مال واپس لے لیں  مسلمان اس نیت سے مدینہ سے نکل پڑے ادھر مدینہ کے یہودیوں نے مخبری کردی اورابوسفیان نے مکہ سے کمک طلب کرلی اورخود راستہ بدل کر نکل گیا ۔ ابوجہل ایک ہزار کا لشکر لے کر جس میں چار سو گھڑ سوار تھے اپنے قافلے کی حفاظت کے لئے بدر کی جانب چل پڑا ۔ نبی اکرم (ص) کواس صورتحال کا علم ہوا تو انہوں نے یہ معاملہ صحابہ کے سامنے رکھ دیا اوراللہ کا وعدہ بھی بتلایا کہ ان دونوں یعنی تجارتی قافلے اور لشکر میں سے ایک چیز ضرور تمہیں حاصل ہوگی ۔ پھر بھی بعض اصحاب نے تردد ظاہر کیا اور تجارتی قافلے کے تعاقب کا مشورہ دیا جبکہ دوسرے تمام صحابہ نے حضور (ص) کے ساتھ لڑنے میں بھر پور تعاون کا یقین دلایا ۔ آپ (ص) نے فرمایا جہاد کی کامیابی زيادہ بہتر ہے ۔ انصار کے سردار سعد بن معاذ نے کہا آپ (ص) حکم دیں تو ہم سمندر میں کو دپڑیں چنانچہ نبی اکرم (ص) تین سو تیرہ مسلمانوں پر مشتمل قلیل سی جماعت کولے کر مقابلے کےلئے روانہ ہوئے ۔مسلمانوں کےپاس کل دو گھوڑے تھے ۔ جنگ بدر کے واقعے کوقرآن مجید نے سورۂ انفال میں تفصیل سے بیان کیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے ۔جیسا کہ آپ (ص) کے رب نے آپ (ص) کے گھر سے حق کے ساتھ آپ (ص) کو روانہ کیا اور مسلمانوں کی  ایک جماعت اس کو گراں سمجھتی تھی ۔ یہ لوگ آپ (ص) سے حق کے واضح ہوجانے کے بعد بھی اس کے بارے میں بحث کرتے ہیں جیسے کہ موت کی جانب ہنکائے جارہے ہوں اور حسرت سے دیکھ رہے ہوں اور اس وقت کویاد کرو جب کہ خدا تم سے وعدہ کررہا تھا کہ دوگروہوں میں سے ایک تمہارے لیے بہرحال ہے اور تم چاہتے تھے کہ وہ طاقت والا گروہ نہ ہو اور اللہ اپنے کلمات کے ذریعے حق کو ثابت کرنا چاہتا ہے اورکفار کے سلسلے کو قطع کردینا چاہتا ہے تا کہ حق ثابت ہوجائے اور باطل فنا ہوجائے چاہے مجرمین اسے کسی قدر برا کیوں نہ سمجھیں ۔ جب تم پروردگار سے فریاد کررہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد سن لی کہ میں ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کررہا ہوں جو برابر ایک کے پیچھے ایک آرہے ہیں اور اسے ہم نے صرف ایک بشارت قراردیا تا کہ تمہارے دل مطمئن ہوجائیں اور مدد تو صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے اللہ ہی صاحب عزت اور صاحب حکمت ہے ۔ جس وقت خدا تم پر نیند غالب کررہا تھا جو تمہارے لئے باعث سکون تھی اور آسمان سے پانی نازل کررہا تھا تا کہ تمہیں پاکیزہ بنادے اور تم سے شیطان کی کثافت کودور کردے اورتمہارے دلوں کو مطمئن بنادے اورتمہارے قدموں کوثبات عطا کردے ۔ جب تمہارا پروردگار فرشتوں کو وحی کررہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں لہذا تم صاحبان ایمان کو ثبات قدم عطا کرو میں عنقریب کفار کے دلوں میں رعب پیدا کردوں گا لہذا تم کفار کی گردن کو ماردو اور ان کی تمام انگلیوں کو پور پور کاٹ دو ۔ یہ اس لیے ہے کہ ان لوگوں نے خدا و رسول (ص) کی مخالفت کی ہے اور جو خدا و رسول (ص) کی مخالفت کرے گا تو خدا اس کے لئے سخت عذاب کرنے والا ہے ۔