• صارفین کی تعداد :
  • 4363
  • 12/16/2007
  • تاريخ :

فقيہ کي ولايت(2)

 

طبيعت

خود اسلام کے احکام سے پتہ چلتا ھے کہ ان احکام کو جاري کرنے کے لئے حکومت اور رھبري کي ضرورت ھے ۔ اسکے بغير اسلام کے احکام کو سماج ميں اجرا نھيں کيا جا سکتا ھے ۔ اس سلسلے ميں امام خميني (رہ) کا يہ جملہ غور طلب ھے :

 

ولايت فقيہ ان موضوعات ميں سے ھے کہ جنکا تصور ھي ان  کي تصديق کرتا ھے اور کسي دليل و ثبوت کي ضرورت نھيں رکھتا ۔ اس طرح جو بھي اسلام کے احکام اور عقايد کو ذرا سا بھي قبول کرتا ھے تو جيسے ھي  وہ ولايت فقيہ (فقيہ کي ولايت) پر پھونچے گا اور اسکا تصور کرے گا تو فوراً ھي اسکي تصديق بھي کردے گا اور اسکو ضروري اور بديہي  سمجھے گا۔ (حکومت اسلامي، مقدمہ )

 

اسي وجہ سے وفات پيغمبر(ص) کے ساتھ اسلامي قوانين اور احکام معطل نھيں ھوگئے بلکہ صرف اتناھوا کہ امت اسلاميہ کي رھبري ائمہ معصومين (ع) کے دوش پر آگئي ۔ امام حسن عسکري(ع) کي شھادت کے بعد اور بارھويں امام کي غيبت کے زمانہ ميں بھي ، مسلمانوں کي ديني اور فکري ھدايت جاري ھے ۔ کيونکہ خدا وند متعال نے اس دين کو ساري دنيا کے لئے آخري و کامل دين اور قرآن کو آخري آسماني کتاب قرار ديا ھے  جو قيامت تک کے آنے والے انسانوں کي فردي  اور سماجي زندگي کے لئے رھنماھے ۔ سب سے بہتر اور عقلي راستہ يھي ھے کہ خد اکے قوانين اور احکام اسلامي حکومت کے ذريعہ جاري ھوں۔ اگر چہ لوگ دين کے بارے ميں علم رکھنے والے اور ديندار ھي کيوں نہ ھوں ، ليکن حکومت، غير اسلامي اور ظالم ھو گي تو اسلام کے احکام کو پوري طرح  پورے معاشرہ پر جاري کرنے کا امکان پيدا ھو  ھي نھيں سکتا ھے ۔

 

بھترين قانون بھي صرف اسي وقت اھميت رکھتا ھے جب اسکو جاري کيا جائے ورنہ صرف قانون کا بنا دينا کوئي اھميت نھيں رکھتا ۔ کسي قانون کو جاري کرنا ، اسکو جاري کرنے والوں اور سماج کو چلانے والوں کے ھاتھوں ميں ھوتا ھے ، نيزحکومت ھي قانون کے اجراء کے لئے ذمہ دار ھوتي ھے ۔

 

مندرجہ بالا وضاحت سے يہ نتيجہ بخوبي نکلتا ھے کہ امام زمانہ (ع) کي غيبت کے زمانہ ميں بھي واحد اور صحيح راستہ يھي ھے کہ ايک اسلامي حکومت ھو جو خدا کے احکام و قوانين کو سماج ميں اجرا کرے ۔ جو اس حکومت ميں سب سے اعليٰ درجہ پر فائز ھوتا ھے اسے ” ولي امر مسلمين “ کھا جاتا ھے ۔ لوگ ھر زمانہ ميں ” ولي “” امام “ پيشوا اور رھبر کے ھاتھوں پر بيعت کرتے ھيں اور اسکے فرمان کو تسليم کرتے ھيں ۔ امام خميني(رہ) اس بارے ميں ، کہ امام زمانہ(ع) کي غيبت کے زمانہ ميں بھي حکومت تشکيل دينا ضروري ہے ، فرماتے ھيں :

" جو چيز حضرت رسول خدا (ص)کي زندگي اور حضرت علي (ع)کے زمانہ ميں لازم تھي وہ حکومت اور قوانين اسلامي کا اجرا کرنا تھا ۔ يھي چيز ا ن کے بعد ، ھمارے زمانہ ميں بھي ضروري ھے " ۔

 

يہ پوري طرح روشن اور واضح ھو جانے کے بعد  کہ امام زمانہ (ع) کي غيبت کے زمانہ ميں بھي حکومت اور پيغمبر خدا (ص) اور ائمہ معصومين (ع) کي ولايت کا جاري رھنا ضروري ھے ، دعويٰ کياجاسکتاھے کہ اسکاسلسلہ فقھا پر جاکر ختم ھو گا ۔  ولايت فقيہ اس زمانہ ميں اس اھم اور بزرگ عھدے کا دوسرا نام ھے ۔ اس دعوے کو ثابت کرنے سے پھلے ضروري ھے کہ اس سے متعلق اصطلاحات) کو روشن اور واضح کر ديا جائے ۔

 

فقيہ کون ھے ؟ مجتھد کيسا ھوتا ھے ؟ کون مجتھد اور فقيہ ھو سکتا ھے ؟ کون ولي فقيہ  ھو سکتا ھے اور اس کے شرائط کيا ھيں ؟ ولي فقيہ اور رھبر کا انتخاب  کيسے ھو ناچاھئے ؟ وہ کن لوگوں کے ذريعہ اور کتني مدت کے لئے منتخب ھوتا ھے ؟ اسکے اختيارات کيا ھيں ؟ ولي فقيہ کس زمانہ تک ولايت رکھتا ھے؟ اس مسئلہ ميں عوام  کا کيا حصہ  ھوتا ھے ؟ يہ اور اس جيسے دوسرے سوالات کے جوابات دينا اور انھيں واضح کر دينا ضروري ھے ۔

 

جس طرح رسول خدا  (ص) نے اپنے بعد ، مسلمانوں کے لئے ان کا وظيفہ اور ذمہ داري روشن کر دي تھي اور اپنا جا نشين معين کر ديا تھا  اسي طرح پيغمبر  کے جانشين امام (ع) نے بھي زمانہ غيبت ميں جس ميں امام (ع) سے رابطہ قائم نھيں کيا جا سکتا  لوگوں کا وظيفہ اور ذمہ داري بيان کر دي ھے ۔ اس جانشيني کا اعلان کبھي ممکن ھے کہ نام اور صفات کے ذريعہ ھو ،  جيسے خود پيغمبر  اور انکے بعد ھر امام (ع) نے ، اپنے بعد آنے والے امام (ع) اور انکي صفتوں کو ذکر کيا يا کبھي ممکن ھے کہ خصوصيت اور شرطوں کو مختصر طور پر بيان کر ديا جائے کہ جو بھي ان صفات اور شرطوں کا حامل ھو  وہ لوگوں کي پيشوائي اور رھبري کے لئے سب سے بھتر ھے ۔ فقھا جو کہ امام (ع) کے جانشين ھيں ، کے سلسلے ميں دوسرا راستہ اختيار کيا جاتا ھے ۔

 

 کسي حديث اور روايت کي طرف رجوع کئے بغير  يہ بات پوري طرح سے واضح  ھے کہ اسلامي سماج ميں  خدا وند متعال کے احکام کا اجراء ھونا ضروري ھے اور چونکہ مسلمانوں کا سر پرست دين کے احکام کو جاري کرنے کا ذمہ دار ھے اور يہ ذمہ داري حکومت کو تشکيل دئے بغير پوري نھيں کي جا سکتي ھے  اس لئے جو بھي حکومت کے عھدے اور منصب پر فائز ھو ،اس ميں مندرجہ ذيل شرطيں پائي جانا ضروري  ھيں :

۱۔ فقاھت  يعني وہ اسلام اور احکام خداميں مھارت رکھتا ھو ۔

۲۔ عدالت  يعني اس ميں عدل اور تقويٰ پايا جاتا ھو ۔

۳۔  کفايت  يعني اس ميں رھبري کے لئے سياسي اور سماجي تدبر اور بصيرت پائي جاتي ھو ۔