• صارفین کی تعداد :
  • 5680
  • 12/16/2007
  • تاريخ :

جنسي اخلاق اور جديد مفکرين کے نظريات

لاله سفيد و قرمز

جنسي اخلاق دراصل عام اخلاق ہي کا ايک حصہ ہے۔ يہ ان انساني عادات‘ جذبات اور رجحانات پر مشتمل ہوتا ہے جن کا تعلق جنسي خواہشات سے ہو۔

عورت کا مرد سے شرمانا‘ مرد کي غيرت‘ بيوي کي شوہر سے وفاداري اور عزت و ناموس کي حفاظت‘ مخصوص اعضاء کا ستر‘ غير محرموں سے عورت کا بدن چھپانا‘ زنا کي ممانعت‘ غير عورتوں سے لمس اور نظربازي کے ذريعے لذت حاصل کرنے کي ممانعت‘ محرموں سے شادي پر پابندي‘ ماہواري کے دنوں ميں بيوي سے ہمبستري پر پابندي‘ فحش تصاوير کو شائع نہ کرنا‘ تجرد مقدس ہے يا ناپاک‘ يہ تمام مسائل جنسي اخلاق و عادات کا حصہ ہيں۔

 

 

ويل ڈيورنٹ کا نظريہ

جنسي اخلاق کا تعلق چونکہ انساني اخلاق سے ہے اور اس ميں (اثرانداز ہونے کي) غير معمولي طاقت بھي موجود ہے‘ لہٰذا وہ ہميشہ سے اخلاق کا بہترين حصہ شمار ہوتا چلا آ رہا ہے‘ ويل ڈيورنٹ لکھتا ہے:

"جنسي تعلقات کي نگہداشت ہميشہ سے اخلاقي ذمہ داري سمجھي جاتي رہي ہے‘ کيونکہ محض توليد نسل کي خواہش نہ صرف شادي کے دوران ميں بلکہ اس سے پہلے اور بعد ميں بھي مشکلات پيدا کرتي ہے۔ ايک طرف اس خواہش ميں شدت و حدت سے اور دوسري طرف اس کے نتيجے ميں قانون شکني اور فطري طريقے سے انحراف سے سماجي اداروں ميں بدنظمي اور انتشار پيدا ہوتا ہے۔"(تاريخ تمدن‘ ج ۱‘ ص ۶۹)

 

جنسي اخلاق کا سرچشمہ

يہاں سے ابتدائي طور پر جو علمي اور فلسفي بحث چل نکلتي ہے وہ يہ ہے کہ جنسي اخلاق کا سرچشمہ کيا ہے؟ عورت ميں حياء اور عفت کي خصوصيات کس طرح پيدا ہوتي ہيں؟ مرد اپني عورت کے معاملے ميں اتنا غيرت مند کيوں ہے؟ کيا يہ غيرت دوسرے لفظوں ميں وہي "حسد" تو نہيں جس کي انسان مذمت کرتا ہے اور استثنائي طور پر صرف اپني بيوي کے معاملے ميں اس جذبے کو قابل تعريف سمجھتا ہے يا يہ کوئي دوسرا جذبہ ہے؟ اگر وہي "حسد" ہے تو اسے مستثنيٰ کيوں قرار ديا گيا ہے؟ اگر يہ کوئي دوسرا جذبہ ہے تو اس کي کيا توجيہہ ہو گي؟ اسي طرح عورت کے ستر کھولنے‘ فحاشي‘ محارم سے شادي کرنے وغيرہ کو کيوں برا سمجھا گيا ہے؟ کيا ان سب کا سرچشمہ خود فطرت اور طبيعت ہے؟ کيا فطرت اور طبيعت نے اپنے مقاصد کے حصول اور انساني زندگي کو منظم کرنے کے لئے‘ جو کہ فطرتاً معاشرتي زندگي ہے‘ انسان ميں مذکورہ بالا جذبات اور احساسات پيدا کئے؟ يا اس کے دوسرے اسباب ہيں‘ يعني تاريخ کے ساتھ ساتھ يہ جذبات انساني روح پر اثرانداز ہوتے رہے اور بتدريج انساني اخلاق اور ضمير کا حصہ بن گئے؟

اگر جنسي اخلاق کا سرچشمہ طبيعت اور فطرت ہے تو موجودہ دور ميں قديم اور وحشي قبائل‘ جن کا طرز زندگي ہنوز سابقہ اقوام کي طرح ہے‘ کيوں ان خصوصيات سے بے بہرہ ہيں؟ جو کم از کم ايک مہذب انسان ميں پائي ہيں۔ بہرحال اس کا سرچشمہ اور مقصد کوئي بھي ہو اور انسانيت کا ماضي کچھ بھي رہا ہو‘ ہميں اس پر شک کرنے کي بجائے يہ سوچنا چاہئے کہ اب کيا کيا جائے؟ انسان جنسي رويے کے بارے ميں کونسا راستہ اختيار کرے جس سے وہ منزل مقصود تک پہنچ جائے؟

کيا قديم جنسي نظام اخلاق ہي برقرار رکھا جائے يا اسے فرسودہ سمجھ کر اس کي جگہ جديد اخلاقي نظام نافذ کيا جائے؟

ويل ڈيورنٹ اگرچہ اخلاق کي بنياد فطرت کي بجائے ان واقعات پر رکھتا ہے جو تلخ‘ ناگوار اور ظالمانہ رہے ہيں‘ تاہم اسے دعويٰ ہے کہ اگرچہ قديم جنسي اخلاقي نظام ميں قباحتيں موجود ہيں ليکن چونکہ وہ راہ تکميل ميں مناسب تر انتخاب کا مظہر ہے‘ لہٰذا بہتر ہے اس کي حفاظت کي جائے۔

ويل ڈيورنٹ بکارت کے احترام اور شرم و حياء کے احساس کے بارے ميں لکھتا ہے:

"قديم سماجي عادات و اطوار اس انساني مزاج کا آئينہ دار ہيں‘ جو ان ميں کئي صدياں گزر جانے اور بے شمار غلطياں کرنے کے بعد پيدا ہوئے‘ لہٰذا کہنا پڑے گا کہ اگرچہ بکارت کے احترام اور حياء کا جذبہ نسبي امور ہيں اور شادي کے ذريعے عورت کو خريد لينے سے متعلق ہيں اور اعصابي بيماريوں کا باعث بنتے ہيں‘ تاہم ان کے کچھ سماجي فوائد بھي ہيں۔ ان عوامل کا شمار جنسيت کي بقاء کے لئے کي جانے والي کوششوں ميں ہوتا ہے۔"(تاريخ تمدن‘ ج ۱‘ ص ۸۴)

فرائيڈ اور اور اس کے شاگردوں کا نظريہ (ويل ڈيورنٹ سے) مختلف ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ جنسي معاملات ميں قديم اخلاقي نظام کو تبديل کر کے اس کي جگہ جديد اخلاقي نظام نافذ کيا جانا چاہئے۔ فرائيڈ اور اس کے ہم نواؤں کے خيال ميں قديم جنسي اخلاق کي بنياد "محدوديت" اور "ممانعت" پر رکھي گئي ہے۔ آج انسان کو جن پريشان کن مسائل کا سامنا ہے وہ اسي ممانعت‘ محروميت اور خوف کے لامتناہي سلسلے سے پيدا ہوئے ہيں۔ وہ وحشتيں ان مسائل کو مزيد الجھا ديتي ہيں جو ان پابنديوں کے باعث انساني ضمير پر مسلط ہو چکي ہيں۔

گل

رسل کا نظريہ

رسل نے جديد اخلاق کا جو تصور ديا ہے اس کي بنياد بھي مذکورہ دلائل ہي پر ہے‘ وہ بزعم خود اس جنسي اخلاق کے فلسفہ کا دفاع کرتا ہے جس ميں شرم‘ عفت‘ تقويٰ‘ عزت (ليکن بقول رسل "حسد") وغيرہ احساسات کا دور دور تک نام و نشان نہيں ملتا‘ انہيں وہ "تابو" کہتا ہے۔

برائي اور رسوائي کا تاثر اور مفہوم دينے والے اعمال کي وہاں کوئي جگہ نہيں‘ وہاں محض عقل و فکر پر اعتماد کرنا پڑتا ہے۔ رسل جنسي محدوديت کا صرف اسي حد تک قائل ہے جس قدر بعض غذائي پرہيزوں کي ضرورت ہوتي ہے وہ تابو (ممنوع و مقدس) اخلاق کے بارے ميں ايک سوال:

"کيا آپ ان لوگوں کو کوئي نصيحت کرنا چاہيں گے جو جنسي مسائل کے بارے ميں کوئي صحيح اور دانشمندانہ راستہ اختيار کرنا چاہتے ہيں؟"

 

کے جواب ميں کہتا ہے:

"اب جنسي اخلاق کے مسئلے پر بھي دوسرے مسائل کي طرح بحث و تمحيص کي ضرورت ہے‘ اگر کسي فعل کے ارتکاب سے دوسروں کو نقصان نہيں پہنچتا تو ہمارے پاس کوئي جواز نہيں کہ ہم اس کے ارتکاب کي مذمت کريں۔"(جہاني کہ من مي شناسم‘ ص ۶۷-۶۸)

 

ايک دوسرے سوال:

"آپ (رسل) کے نظريے کے مطابق آبرو پر حملے کي مذمت کرني چاہئے‘ ليکن آپ عصمت کے منافي ان افعال کي مذمت نہيں کرتے جو چنداں نقصان دہ نہ ہوں؟"

 

کے جواب ميں رسل کہتا ہے:

"ہاں ايسي ہي ہے‘ ازالہ بکارت افراد کے درميان ايک (قسم کا) جسماني تجاوز ہے‘ ليکن اگر ہم عصمت کے منافي مسائل سے دوچار ہوں تو ہميں موقع و محل کے مطابق يہ ديکھنا ہو گا کہ ايسے حساس وقت پر کيا ہمارے پاس مخالفت کرنے کے لئے دلائل موجود ہيں يا نہيں؟"(جہان کہ من مي شناسم‘ ص ۶۷-۶۸)

ہم في الحال اس بحث ميں نہيں پڑتے کہ حياء وغيرہ قسم کے جذبات جنہيں آج جنسي اخلاق کا نام ديا جاتا ہے‘ فطري ہيں يا غير فطري؟ کيونکہ يہ ايک مفصل بحث ہے‘ ليکن اتنا ضرور ہے کہ يہ خيال نہ کيا جائے کہ علوم نے واقعي اتني ترقي کر لي ہے کہ ان جذبات کے سرچشمے کا سراغ لگايا جا چکا ہے۔ اس موضوع پر جو کچھ کہا گيا ہے وہ محض مفروضات ہيں اور دلچسپ امر يہ ہے کہ ان مفروضات کو تراشنے والوں کے نظريات ميں بھي يکسانيت موجود نہيں ہے‘ مثلاً فرائيڈ کے ہاں حياء پيدا ہونے کا جو سبب ہے وہ رسل کے ہاں نہيں ہے‘ جبکہ ويل ڈيورنٹ کوئي دوسرا مقصد بتاتا ہے‘ ہم طوالت کے خوف سے ان اختلاف اور تضادات کا ذکر نہيں کرتے۔ ان احساسات کو غير طبيعي ثابت کرنے کے لئے مذکورہ فلاسفہ کا رجحان ہي دراصل ان احساسات کي صحيح تشريح ميں ناکامي کا سبب ہے۔

ہم فرض کر ليتے ہيں کہ يہ احساسات کسي طرح بھي فطري نہيں ہيں اور ہم چاہتے ہيں کہ فرد اور معاشرے کي اصلاح اور انسانيت کي فلاح و بہبود کے جذبے سے دوسرے امور کي طرح ان کے متعلق بھي کوئي رائے قائم کريں‘ لہٰذا اس بارے ميں عقل و منطق کيا حکم عائد کرتي ہے؟ کيا عقل يہ بات قبول کرتي ہے کہ مکمل روحاني سکون اور معاشرتي خوشحالي حاصل کرنے کے لئے تمام حديں پھلانگ جاني چاہئيں اور سب سماجي پابندياں اٹھا ليني چاہئيں؟ عقل اور منطق کا تقاضا تو يہ ہے کہ جنسي تعلقات کو فحش قرار دينے والي خرافات اور روايات کے خلاف جنگ لڑي جائے اور آزادي و آزادانہ پرورش کے نام پر (جنسي) خواہش کے لئے پريشان کن‘ گناہ آلود اور ہيجان انگيز سامان فراہم نہ کيا جائے۔