اسلامي نظام ميں حقوق
حقوق بھي اسلامي سياست کا ايک حصہ ھيں اور اس مفروضہ کي بنا پر حقوق سے وابستہ قوانين کا تعين اللہ تعاليٰ کي جانب سے اسي طرح قانوني حيثيت کا حامل ھے جس طرح سے دين اسلام کي بنياد پر مبني اسلامي عدالتوں کے قوانين و مقررات کوقانوني حيثيت حاصل ھے ۔
قرآن مجيد ميں غير شرعي اور غير قانوني عدالتوں کا ذکر طاغوت کے عنوان سے کيا گيا ھے اور ان کي اطاعت قبول کرنا طاغوت کي اطاعت قبول کرنے کے برابر بتائي گئي ھے ، جبکہ عدالت اور انصاف کا تعلق صرف اللہ ، اس کے رسولوں اور ان کي پيروي کرنے والوں سے ھے ۔
” يا ايھا الذين آمنوا اطيعوا اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واحسن تاويلا “ ” الم تر الي الذين يزعمون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان يضلھم ضلالا بعيدا “
” اے ايمان لانے والو ! اللہ کي اطاعت کرو اور اس اور ان واليان امر کي اطاعت کرو جو تم ھي ميں سے ھيں پھر اگر کسي معاملے ميں تم ميں آپس ميں جھگڑا ھو تو فيصلے کےلئے اسے اللہ اور رسول کي طرف پلٹادو بشرطيکہ تم اللہ اور قيامت کے دن پر ايمان رکھتے ھو ۔ يھي سب سے بھتر اور عمدہ تاويل ھے ۔ کيا تم نے ان کو نھيں ديکھا جو يہ گمان کرتے ھيں کہ جو کچہ تم پرنازل کيا گيا اور جو کچہ تم سے پھلے نازل کيا گيا وہ سب پر ايمان لائے ھيں اور چاھتے ھيں کہ اپنا مقدمہ طاغوت کے پاس لے جائيں حالانکہ ان کو حکم ديا جا چکا ھے کہ اس کے منکر ھوں اور شيطان يہ ارادہ رکھتا ھے کہ ان کو بھٹکا کر بڑي گمراھي ميں ڈال دے۔
ان آيتوں ميں ان لوگوں کي سخت مذمت کي گئي ھے جنھوں نے غير شرعي اور غير قانوني عدالتوں کے فيصلوں کو مانا اور ان پر عمل کيا ھے حالانکہ اسلام کے سياسي، قانوني اور سماجي نظام ميں حاکميت اور قضا کے قانوني مقام کا تعين اللہ ، اس کے رسول اور واليان حق کے ذريعے ھونا لازمي ھے اور جو حکم ان کي جانب سے صادر ھو اس پر عمل کرنا بھي ضروري ھے۔
” و ما کان لمؤمن و لا مؤمنة ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقد ضل ضلالا مبينا “ ” کسي مومن مرد کے لئے يہ بات مناسب ھے نہ کسي مومن عورت کے لئے کہ جب خدا اور اس کے رسول نے ايک بات طے کر دي تو پھر انھيں اپنے اس معاملہ ميں کچہ بھي اختيار ( باقي ) رھے ۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کي نافرماني کرے گا يقينا وہ تو کھلي گمراھي ميں پڑے گا “
افراد اور اسلامي معاشرے سے وابستہ قوانين کي ضمانت شرع مقدس اور اس کے قوانين و مقررات کي روشني ميں ان شرعي حاکموں کے ذريعے ھوتي ھے جو اسلامي نظام ميں واليان صالح کے ذريعے مقرر کيے جاتے ھيں ۔
قرآني آيات کي بنا پر اب تک اسلام کے سياسي نظام ميں حکومت کے اغراض و مقاصد اور فرائض کے بارے ميں جو کچہ معروضات پيش کيے جا چکے ھيں ان کا خلاصہ يہ ھے :
۱۔ مکتب حق يعني اسلام کي حفاظت ،جو تمام فضيلتوں کي اساس ھے ۔
۲۔ طاغوت سے جنگ ،جو تمام خبائث اور تباھيوں کي جڑ ھے ۔
۳۔ مستضعفين کي حمايت اور غريبوں کي مدد ،جو دستور قرآن کي بجا آوري ھے ۔
۴۔ محروموں کے حقوق چھيننے اور غصب کرنے والوں کو کچلنا ۔
۵۔حق ،انصاف اور مساوات کي بنيادوںپر انفرادي اور سماجي حقوق کو محفوظ رکھنا ۔
۶۔ ملک کے اقتصاديات کو فروغ دينے کي غرض سے تبعيض اور استحصال پر قابو پانا ۔
۷۔ اتحاد کو محفوظ رکھتے ھوئے اختلافات کو ختم کرنا ۔
۸۔ انسان کي دنيوي اور اخروي سعادت کي ارتقا کے لئے شائستہ مکتب فکر اور رھبري کي بنياد پر لوگوں کو تربيت دينا