اسلام ميں نظام حکومت
سياسي نظام اسلام ميں قابل بحث ھے ۔ نظريات ، فلسفوں ، عرف عام اور رسم و رواج کے نقطۂ نظر سے سياسي نظام اور حکومت کي قسميں مختلف ھيں ۔حضرت عيسيٰ (ع) مسيح کي ولادت سے چار صدي پھلے يوناني معاشرے ميں ارسطو نے ” سياست “ کے موضوع پر ايک کتاب لکھي تھي جس ميں تين طرح کي حکومتوں کي طرف اشارہ کيا گياھے : استبدادي ( شخصي ) ، اشرافي ( بالا طبقے کي حکومت ) اور ڈيموکريسي ۔ تاريخ علم سياسيات کي طويل مدت ميں ڈيموکريسي حکومت سب سے بھتر سمجھي گئي ھے ، اس سے قطع نظر کہ مفاھيم ميں کس قسم کے اختلافات موجود ھيں ، لوگ اس سے کيا مراد ليتے ھيں اور کس حد تک يہ لفظ صحت و سقم پر مبني ھے ۔ ھمارا مقصد صرف اتنا ھے کہ اسلامي سياست و حکومت، مذکورہ حکومتوں ميں سے کس حکومت سے مماثلت رکھتي ھے ؟
اس سوال کے جواب ميں قرآني آيتوں پر غور و فکر کرنے کے بعدھم اس نتيجہ پر پھنچتے ھيں کہ اسلامي معاشرے ميں سياست کا مفھوم ڈيموکريسي کے اس مفھوم سے قريب ھے جس ميں کسي قسم کا دھوکہ اور فريب شامل نہ ھو، ليکن ان دونوں کے درميان وہ بنيادي اختلاف بھي موجود ھے جو اسلامي نظام ميں روح سياست کے تشخص کا باعث ھوتا ھے اور وہ ھے حاکميت خدائے لا يزال ۔
اس موضوع کو مزيد واضح کرنے کي غرض سے قرآن مجيد کي روشني ميں ان اصولوں کو پيش کياجا رھاھے جن سے حکومت کو قانوني حيثيت ملتي ھے اور اس کے بعد مذکورہ خصوصيت کا تفصيلي جائزہ لياجائے گا ۔
حکومت کے بروئے کار آنے کي صورتيں
۱۔ نص : يعني خدا اور رسول کي طرف سے تعين ۔يہ امتياز در اصل پيغمبر و امام کو حاصل ھوتا ھے ، پھر نتيجةً” ولي فقيھہ کو ، بشرطيکہ اس ميں نبي و اوصيائے نبي کے بيان کردہ اساسي صفات پائے جاتے ھوں ۔ جيسا کہ آيۂ ذيل سے واضح ھے ۔
”ياايھاالذين آمنوا اطيعوا اللہ و اطيعوا الرسول و اولي الامر منکم“ ” اے ايمان لانے والو ، اللہ رسول اور ان واليان امر کي اطاعت کرو جو تم ھي ميں سے ھيں “ ۔
۲۔ شوريٰ يعني ارباب حل و عقد جو عوام کي نظر ميں مقبول ھوں وھي آپس ميں مشورہ کر کے نيک اور صالح ترين شخص کو انتخاب کر سکتے ھيں ۔
۳۔ رائے عامہ : نص صريح کي عدم موجودگي ميں عوام ، اسلام ميں مذکورہ صفات و خصوصيات کے حامل شخص کو حکمراني کے لئے انتخاب کر کے اسے اسلامي معاشرے ميں سياست کرنے کي ذمہ داري سونپ سکتے ھيں ۔
ليکن انتخاب ھو يا شوريٰ ان دونوں کے نتيجہ ميں ايک بنيادي نکتہ جو لوگوں کي فکر و توجہ کا مرکز اور جس کے ذريعے اسلامي نظام دوسرے نظاموں سے ممتاز قرار پاتا ھے ، اسلامي سياست کے معاملوں پر ولي امر کي نظارت کا مسئلہ ھے ، جسے ھر حالت ميں ھونا چاھئے ۔ اس بات کي وضاحت ضروري ھے کہ ولايت امر کا تعلق صرف پيغمبر و امام (ع) اورزمانہ غيب ميں جبکہ پيغمبر و امام تک رسائي ممکن نھيں ،اس فقيہ سے ھے جسکے اندر وہ تمام شرائط پائي جاتي ھوں جو ولي امر کے لئے بيان کي گئي ھيں ۔ ولي امر لوگوں سے مشورہ اور رائے طلب کرنے کے بعد منظور ھونے والي قرار دادوں پر غور و فکر کر کے ان کو منظور يا نا منظور کر سکتا ھے اور يہ حق ولي امر کے لئے ھميشہ سے محفوظ ھے ۔ ارشاد باري تعاليٰ ھے :
” و شاور ھم في الامر فاذا عزمت فتوکل علي اللہ “ ” آيت ميں مشورہ کرنے پر زور ضرور ھے ليکن آخري فيصلہ کرنا پيغمبر کے ذمے ھے وہ بھي خدا پر بھروسہ کرتے ھوئے “ ۔
لھذا اسلام کے سياسي نظام ميں شوريٰ اور رائے عامہ کي خصوصيت يہ ھے کہ دوسرے سياسي نظام ميںصرف شوريٰ اور رائے عامہ پر ھي زور ديتے ھيں اور خدا و پيغمبر سے ان کا کوئي واسطہ نھيں ھوتا جبکہ اسلامي سياست کا زور زيادہ تر خدا اور بندوں کے درميان حکومت ميں پيغمبر کي نظارت پر ھوتا ھے ۔
جو حاکميت ولي امر کے ذريعے عملي شکل اختيار کرتي ھے ، در حقيقت اس کا تعلق اللہ تعاليٰ سے ھے ، البتہ لوگ بھي فکر و نظر کے مالک ھيں ليکن يہ فکر و نظر بطور مطلق نھيں بلکہ اس شرط پر ھے کہ ان کے افکار و خيالات احکام و قوانين الٰھي سے مطابقت اور ولايت امر سے موافقت رکھتے ھوں ۔” لتحکم بين الناس بما اراک اللہ “