• صارفین کی تعداد :
  • 4093
  • 12/16/2007
  • تاريخ :

دين کا ظلم سے مقابلہ

قرآن

قرآن مجيد ستمگاروں کے انجام کا اعلان کرتے ھوئے کھتا ھے : ” و تلک القريٰ اھلکنا ھم لما ظلموا و جعلنا لمھلکھم موعدا “  (1)

اور ان بستيوں کو ( جن کو تم ديکھتے ھو ) جب ان لوگوں نے سر کشي کي تو ھم نے ھلاک کر ديا اور ھم نے ان کي ھلاکت کا وقت معين کر ديا تھا ۔ 

رھبران دين معاشرہ کي پائداري سے بھت زيادہ دلچسپي رکھتے تھے ۔ عدل و انصاف کي وسعت کے لئے دل سے خواھاں تھے اور يھي ان کا اصلي مقصد تھا ، انھيں حضرات نے معاشرے ميں ظلم و ستم کے مقابلے ميں قيام کرنے کي ھمت پيدا کي ۔ظالموں کي کمين گاھوں کو مسخر کر ليا ، ان کي وحشيانہ طاقتوں کو شکست ديدي ۔ ظلم کو ناقابل عفو قرار ديديا اور لوگوں کو اس کے قريب جانے سے اتنا روک ديا کہ شرک کو بھي ايک قسم کا ظلم قرار ديديا ۔

در حقيقت بزرگان دين و پيشوايان مذھب کا رويہ و طور طريقہ خود ھي ظلم کے خلاف ايک عظيم قيام تھا ۔ قرآ ن کا اعلان ھے : ” لقد ارسلنا رسلنا با لبينات و انزلنا معھم الکتاب و الميزان ليقوم الناس با لقسط “ (2)

”ھم نے اپنے پيغمبروں کو واضح روشن معجزے ديکر بھيجا اور ان کے ساتھ کتاب اور انصاف کي ترازو نازل کي تاکہ لوگ عدل و انصاف پر قائم رھيں “۔

 

چونکہ اسلام کا سب سے بڑا مقصد ھر چيز ميں عدالت قائم کرنا ھے اس لئے وہ اپنے ماننے والوں کو ھر ايک کے ساتھ کسي چيز کا اعتبار کئے بغير اور کسي شخصي عنوان کا لحاظ کئے بغير عدالت و مساوات برتنے کا حکم ديتا ھے ۔ حق کشي و ستمگري کو ھر اعتبار سے ھر شخص کے ساتھ ممنوع قرار ديتا ھے ۔ ارشاد ھوتا ھے :

” يآيھا الذين اٰمنوا کونوا قوّامين للہ شھداء بالقسط و لا يجرمنکم شناٰن قوم عليٰ الا تعدلوا اعدلوا ھو اقرب للتقويٰ “ (3)

” اے ايماندارو خدا کي خوشنودي کے لئے انصاف کے ساتھ گواھي دو اور خدا کے لئے قيام کرو ، تمھيں کسي قبيلے کي دشمني خلاف عدالت کام پر آمادہ نہ کر دے ( بلکہ ) تم ھر حال ميں عدالت سے کام لو يھي پرھيز گاري سے بھت قريب ھے ۔

 

اسي طرح عدالت و قضاوت کے سلسلے ميں ارشاد فرما رھا ھے :

” و اذا حکمتم بين الناس ان تحکموا با لعدل “ (4)

” اور جب لوگوں کے باھمي جھگڑوں کا فيصلہ کيا کرو تو انصاف سے فيصلے کرو “۔

 

اسلام کي نظر ميں عدالت کي اتني زيادہ اھميت ھے کہ اگر کسي شخص کے اندر تمام خصوصيات جمع ھوں ليکن عدالت نہ ھو تو وہ مسند قضاوت پر بيٹھنے کا حق نھيں رکھتا ۔

خود والدين کي حساس و بنيادي ذمہ داريوں ميںايک ذمہ داري يہ بھي ھے کہ اپني اولاد کے معاملے ميں بھي اصول عدالت کا لحاظ رکھيں تاکہ بچوں کي سرشت ميں عدالت راسخ ھو جائے اور ان کي طبيعت کبھي ظلم و ستم کي طرف مائل نہ ھو۔ اس کے لئے ضروري ھے کہ ان کے ساتھ ھر قسم کي عدالت برتي جائے ۔ جن بچوں کے والدين عدالت سے کام نھيں ليتے ان کے اندر کبھي يہ صفت پيدا نھيں ھو سکتي بلکہ وہ فطرتا ظلم و ستم کے عادي ھوں گے ۔ايسے بچے معاشرے کے اندر حق کشي اورتجاوز کريں گے بلکہ والدين بھي ان سے عادلانہ برتاؤ نھيں ديکھيں گے ۔ رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم نے اس روحاني و تربيتي موضوع کي طرف توجہ فرمائي ھے اور اپنے ماننے والوں کو اس کي بھت تاکيد فرمائي ھے چنانچہ فرماتے ھيں : اگر تم چاھتے ھو کہ تمھارے بچے تمھارے ساتھ مھر و محبت ، نيکي و عدالت کا برتاؤ کريں تو ان کو کچھ بھي دينے ميں انکے ساتھ عدالت و مساوات رکھو ۔(5)

 

قرآن مجید

 

برٹرانڈر اسل کھتا ھے : انساني نفس بخار کي طرح ھميشہ روبترقي ھے۔ اس لئے بچوں کي صحيح تربيت کا طريقہ يہ ھے کہ خارجي تعليمي دباؤ کو اس طرح قرار ديں کہ بچوں کے ذھن و فکر ، قلبي ميلان و جذبات اس کو قبول کر ليں ۔ تربيت کا طريقہ يہ نھيں ھے کہ ان کو ھر وقت زود کوب کيا جائے اس سلسلے ميں سب سے زيادہ ضروري چيز عدالت کا برتنا ھے ۔ عدالت ايک ايسا مفھوم ھے جس کے لئے ھماري کوشش يہ ھوني چاھئے کہ بچوں کے افکار و عادات ميں رفتہ رفتہ کر کے داخل کريں ۔ عدل کي صحيح تربيت اسي وقت ھو سکتي ھے جب اس بچے کے ساتھ کئي اور بچے ھوں جو چيز ايسي ھو کہ جس سے ايک وقت ميں صرف ايک ھي بچہ لذت و مسرت حاصل کر سکتا ھو اور اس کے حصول کے لئے ھر ايک کي کوشش ھو مثلا سائيکل کي سواري کہ ھر بچے کي خواھش يہ ھوتي ھے کہ بلا شرکت غير سے صرف وھي استفادہ کرتے تو يھاں پر عدالت کي تربيت دينا ممکن ھے ۔ اس طرح کہ بزرگ حضرات نمبر لگا ديں آپ کو تعجب ھو گا کہ تمام بچوں کي خواھشات مغلوب ھو جائيں گي اور سب اس پر تيار ھو جائيں گے، ميں اس بات کو تسليم نھيں کرتا کہ حس عدالت جبلي و فطرتي ھے ليکن جب ميں نے ديکھا کہ کتني جلدي يہ عدالت اس نے مان لي تو مجھے بھت تعجب ھوا ليکن اس ميں عدالت حقيقي ھونا چاھئے اس ميں ايک بچے کو دوسرے پر ترجيح نھيں ديني چاھئے ۔ اگر آپ کسي ايک بچے سے زيادہ محبت کرتے ھيں تو اس کا لحاظ رکھئے کہ اپنے جذبات پر کنٹرول کيجئے ۔ ايک قاعدہ ٴکليہ يہ ھے کہ کھيل کود کے اسباب ( اور کھلونوں ) ميں مساوات رکھيئے ۔ کسي مشق يا اخلاقي ورزش کے ذريعے بچوں ميں عدالت پيدا کرنا سعي لا حاصل ھے ۔

معصوم عليہ السلام کا ارشاد ھے : اگر تم چاھتے ھو کہ تمھاري اولاد تمھارے ساتھ نيکي و حسن سلوک کرے تو اپني اولاد کے درميان عدالت و مساوات برتو اور خدا سے ڈرو! (6)

 

حضرت علي عليہ السلام نے جب محمد ابن ابي بکر کو مصر کي گورنري دي ھے تو جو دستوران کو ديے ھيں ، ان ميں سے ايک يہ ھے : ان کے لئے اپنے بازووں کو جھکادو ۔ ان کے ساتھ خوشروئي سے پيش آؤ ۔ان کے ساتھ اوقات و لمحات ميں مواسات کرو تاکہ بڑوں کو تم سے ظلم کي توقع نہ رھے اور غريبوں کو تمھارے انصاف سے مايوسي نہ ھو ۔(7)

 

سفرائے الٰھي بنيان گزار عدالت اور انسان کي تکميل کي سعي کرنے والے تھے ، حضرت علي عليہ السلام کي ظاھري خلافت ميں جناب عقيل ( حضرت علي  عليہ السلام کے حقيقي بھائي ) ايک مرتبہ حضرت علي عليہ السلام کے پاس آئے اور اپني تھي دستي و پريشاني کا شکوہ کيا اور اصرار کيا کہ آپ مجھے ميرے حق سے تھوڑا سا گيھوں زيادہ ديديں ۔ حضرت علي عليہ السلام نے بھت سمجھايا ۔ جب ان کا اصرار بڑھتا گيا تو آپ نے ايک لوھے کے ٹکڑے کو گرم کر کے عقيل کے بدن سے قريب کيا ۔ عقيل تڑپ اٹھے ۔ اس وقت حضرت علي عليہ السلام نے فرمايا : اے عقيل! تمھاري ماں تمھارے ماتم ميں بيٹھے ۔ تم تو اس آگ سے جس کو ايک انسان نے روشن کيا ھے اتنا بيتاب ھو گئے اور نالھٴ و فرياد کرنے لگے ۔ليکن ميں اس آگ سے نہ ڈروں ، جس کو قھر و غضب الٰھي نے روشن کيا ھو ؟ بھلا ميں کيونکر اس کا متحمل ھو سکتا ھوں ؟ کيا يہ انصاف ھے کہ تم تو ذرا سا جسم کے متاثر ھو جانے پر داد و فرياد کرو اور ميں عذاب الٰھي پر صبر کروں!؟ اسي کے ساتھ يہ بھي فرمايا : خدا کي قسم اگر پوري دنيا کي حکومت مع اس کي دولت و ثروت کے اس شرط کے ساتھ ميرے سپرد کي جائے کہ ايک چيونٹي کے منہ سے ظلم و ستم کے ساتھ جو کے چھلکے کو چھين لوں تو ميں ھر گز قبول نہ کروںگا ۔ يہ پوري دنيا اور تمھاري محبت اس چيز سے کھيں پست ھے کہ اس کي خاطر ميں کسي چيونٹي کو آزردہ کروں!

امام حسين عليہ السلام نے يزيدي ظلم کے خلاف اور آئين عدالت و مقصد انسانيت کے لئے اتنا عظيم قدم اٹھايا تھا کہ آج بھي تاريخ بشريت کي پيشاني پر وہ اقدام روشن و منور ھے ۔

حوالے

 ۱۔ سورہٴ کھف/ ۵۹  

 ۲۔ سورہ ٴحديد /۲۵  

۳۔ سورہ ٴمائدہ / ۸  

۴۔سورہٴ نساء /۵۸ 

 ۵۔نھج الفصاحة ص/ ۶۶

۶۔نھج الفصاحة ص/ ۸

۷۔نھج البلاغہ ص/ ۸۷۷