پاک فوج کو سعودی عرب بھیجنا قومی مفاد میں نہیں
اپریل 2015ء میں پارلیمنٹ میں تاریخ ساز مشترکہ سیشن ہوا، جس میں سعودی عرب کی جانب سے یمن جنگ کے لئے پاکستانی فوجیوں کو بھیجنے کی درخواست پر بحث ہوئی۔
بظاہر طور پر ایک طے شدہ معاملے نے اچانک سے سر اٹھا لیا ہے۔ اپریل 2015ء میں پارلیمنٹ میں تاریخ ساز مشترکہ سیشن ہوا، جس میں سعودی عرب کی جانب سے یمن جنگ کے لئے پاکستانی فوجیوں کو بھیجنے کی درخواست پر بحث ہوئی۔ پاکستانی پارلیمنٹ نے ایک مشترکہ قرارداد منظور کی کہ پاکستان یمن کے تنازع پر غیر جانبدار اور خطے میں پھیلے انتشار سے اجتناب کرے گا، تاہم صرف اسی وقت جنگ میں کودے گا، جب سعودی عرب یا مقدس مقامات کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوگا۔ پارلیمنٹ کا فیصلہ دلیرانہ اور اصولوں پر مبنی تھا۔ لیکن اس تاریخی قراراداد کے بعد گزرے مہینوں اور برسوں کے دوران یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ سعودی عرب کا اپنے بااختیار ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں مملکتی خواہشات کو پوری طرح حاصل کرنے کے لئے پاکستان کی طرف جھکاؤ برقرار رہا ہے۔ اب، پاک فوج نے اچانک اعلان کر دیا ہے کہ فوجیوں کی غیر واضح تعداد کو نام نہاد "ٹرینڈ اینڈ ایڈوائز مشن" کے لئے سعودی عرب بھیجا جائے گا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر ) کی جانب سے مختصر بیان نے اس تشویش کو جنم دیا ہے کہ پارلیمنٹ میں طے شدہ ایک عوامی فیصلے کو خفیہ فیصلہ سازی کے عمل سے کچلا جا رہا ہے۔
سعودی عرب میں فوجیوں کی تازہ اور غیر واضح تعداد بھیجنے کے معاملے پر پارلیمنٹ میں غصے کا اظہار فطری ہے، حالانکہ اس سے قبل آئی ایس پی آر خود اصرار کرچکا ہے کہ پاکستانی فوجیوں کو ملک سے باہر تعینات نہیں کیا جائے گا۔ سینیٹ نے وزارت دفاع کے وزیر کو طلب کر لیا ہے جبکہ دوسری طرف قومی اسمبلی نے وزارت خارجہ سے جواب طلب کیا کہ پاکستانی فوجیوں کو کیوں اور کن شرائط پر سعودی عرب بھیجا جا رہا ہے۔ وفاقی حکومت اور عسکری قیادت کو فوری طور پر اور کھل کر پارلیمنٹ کے تحفظات دور کرنے ہوں گے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو انتشار زدہ ملک میں پاکستانی فوجیوں کی تعیناتی کی گمراہ کن خبر کا اثر غیر معمولی ہوسکتا ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ملک کے لئے بہت اہم ہیں، جہاں دونوں ملکوں کا مفاد ہو، وہاں دونوں کا باہمی تعاون بھی اہمیت رکھتا ہے اور ایسے تعاون کو جاری و ساری بھی رہنا چاہیئے، لیکن سعودی عرب کے تمام قومی مقاصد کی پاکستان کے مفادات سے مطابقت ضروری نہیں۔
اب جبکہ اسلامک ملٹری کاونٹر ٹیرازم کولیشن (آئی ایم سی ٹی سی) کی حیثیت ایران مخالف اتحاد کی صورت اختیار کرچکا ہے تو اس میں یا یمن میں سعودی قیادت میں جاری جنگ میں پاکستان کا الجھنا ہرگز قومی مفاد میں نہیں۔ ایران کے ساتھ ہماری سرحدیں ملتی ہیں اور دوستانہ تعلقات بھی ہیں۔ اسی طرح اگر سعودی قیادت میں جی سی سی کا قطر پر دباؤ بڑھتا ہے تو پاکستان کے مفاد میں یہی ہے کہ وہ اس میں شامل تمام ممالک کے ساتھ متوازن تعلقات قائم رکھے۔ غالباً سعودی عرب کو معاونت اور مشورہ دینے کے لئے فوجی مشن بھیجنے کی جائز اور محدود وجوہات ہیں، اگرچہ آئی ایس پی آر کا یہ دعویٰ ہے کہ مذکورہ فیصلہ دوطرفہ سلامتی تعاون کو دھیان میں رکھتے ہوئے کیا گیا ہے اور اس کا کسی قسم کا براہ راست تعلق آئی ایم سی ٹی سی اور یمن تنازع سے نہیں ہے، لیکن پھر اس حوالے سے بھی پارلیمنٹ میں آزادانہ بحث و مباحثہ ہونا چاہیئے، رازداری برتنے کا عمل محض سازشی نظریات اور قیاس کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے۔