ڈیرہ کے حالات کی ایک وجہ ایم ایم اے بھی ہے، علامہ ناصر عباس
میں عمران خان سے سوال کرتا ہوں کہ ڈی آئی خان میں تو آپکا ایک ایم پی اے موجود ہے، وہ لوگوں کے پاس کیوں چل کر نہیں جاتا
علامہ ناصر عباس جعفری مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں، انہوں نے بہت ہی کم عرصہ میں قیام کرکے پاکستان میں ملت تشیع کے حقوق کی بازیابی کیلئے آواز بلند کی اور عملی جدوجہد کا آغاز کیا۔ علمی حوالے سے بہت مضبوط ہیں، اسکے علاوہ حالات حاضرہ کا بہت ہی زبردست تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں۔ ایران کی سرزمین قم المقدس میں دینی تعلیم حاصل کی، اتحاد بین المسلمین کیلئے بہت زیادہ کوششیں کی ہیں، یہی وجہ ہے کہ مجلس کے مرکزی پروگراموں میں اہل سنت جماعتوں کے قائدین موجود ہوتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے علامہ ناصر عباس جعفری سے موجودہ ملکی صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی ہے، جو پیش خدمت ہے۔ادارہ
اسلام ٹائمز: دہشتگردی کے خاتمے کے حوالے سے اب تک کی جانیوالی کوششوں کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس: میں سمجھتا ہوں کہ جب تک آپ دہشتگردی کے درخت کو نہیں کاٹیں گئے یا فقط اس کی شاخیں کاٹتے رہیں گے، آپ پاکستان کے عوام کی جان اور مال کی حفاظت نہیں کرسکتے، دہشتگردی کے مقابلے کے لئے چار سے پانچ اقدامات ضروری تھے، جو کرنے چاہیئے تھے، مثال کے طور پر ان کو اقتصادی طور پر کمزور کرنا، سیاسی لحاظ سے تنہا کرنا، سماج میں ان کی جڑوں کو ختم کرنا، مذہبی طور پر ان کا مقابلہ کرنا اور عسکری لحاظ ان کو غیر مسلح اور ان کا مقابلہ کرنا، اس کے علاوہ عوام کو شعور دینا کہ یہ عوام اور ملک کے دشمن ہیں، ان سے تعاون نہ کریں۔ حکمران کہتے ہیں کہ ان کا کوئی مذہب نہیں ہے، بھائی صاحب انکا مذہب ہے، یہ اللہ اکبر کہتے ہیں، یہ اپنا مکتب فکر رکھتے ہیں، یہ بکتے اور دوسروں کے لئے کام کرتے ہیں۔ جب تک آپ دشمن کے بارے میں کنفیوژ ہیں اور سوسائٹی کو آگاہ نہیں کرتے، دہشتگردی کا سلسلہ جاری رہے گا، چند لوگوں کو آپ مار کر کہتے ہیں کہ دہشتگردوں کو مار دیا، اصل کام تو آپ نے کیا ہی نہیں، دہشتگرد ہمارے معاشرے میں سکیورٹی تھریٹ ہیں اور یہ تھریٹ کم ہوتا ہے لیکن ختم نہیں ہوتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ایک جامع کوشش نہیں ہو رہی، آپ نے دیکھا کہ پچھلے دنوں تکفریوں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے ایک بیانیہ تیار کرایا گیا اور اس پر دستخط کرائے گئے۔ میرا سوال یہ ہے کہ جس نے تکفیر کی، کیا اس کو سزا ملنی چاہیے؟، جس نے انتہا پسندی کو فروغ دیا، اس کو کیا سزا ملی۔؟ ضیاءالحق کے دور سے انتہا پسندی کو زیادہ ہوا ملی ہے، اس کی بنیادی وجہ ہماری افغان پالیسی تھی، اس افغان پالیسی نے پاکستان کو عوام کے لئے جہنم بنا دیا، پالیسی بنانے والوں سے کسی نے پوچھا ہے کہ تم نے یہ پالیسی کیوں بنائی تھی؟، کسی کو جواب دینے کے بلایا گیا؟، جب احتساب ہی نہیں تو پھر ان چھوٹے چھوٹے اقدامات سے کیا ہوگا۔ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ناقص اپروچ اور ناقص پلاینگ کی گئی ہے، اس پلاننگ میں انتہا پسندی پھیلانے والوں کو ٹچ تک نہیں کیا گیا۔
اسلام ٹائمز: ناقص اپروچ سے مراد کیا ہے۔؟
علامہ ناصر عباس: دیکھیں پاکستان جس بلاک میں تھا، اس بلاک نے دہشتگردی کو دنیا میں پھلایا ہے، وہ امریکن بلاک کہلاتا ہے، تمام دنیا میں بڑے بڑے دہشتگرد بنانے میں امریکہ کا بڑا رول ہے، اس دہشتگردی پھیلانے میں سعودی عرب بھی ملوث ہے، امریکی آل سعود کے ساتھ ملکر داعش کو اس خطے میں لائے ہیں، ویسٹرن ایشیاء کے بعد اب افغانستان میں داعش کو لایا جا رہا ہے، مقصد اس ریجن کو ڈسٹرب رکھنا ہے، ہم (حکمران) کہتے ہیں کہ امریکہ اور آل سعود ہمارے دوست ہیں، یمن کے اندر القاعدہ مصبوط ہو رہی ہے، داعش کو مضبوط کیا جا رہا ہے، یہ یمن کے ان علاقوں میں ہو رہا ہے، جہاں سعودیوں کا ہولڈ ہے یا پھر یو اے ای کا اثرو رسوخ ہے، آپ نے دیکھا کہ شام میں پوری دنیا سے تکفیریوں کو جمع کیا گیا، ان دہشتگردوں کو ٹرینگ دی گئی اور مسلح کیا گیا۔ یہی حال عراق کا ہے، اب اگر آپ دہشتگردی کا خاتمہ چاہتے ہیں تو آپکو اس بلاک سے نکلنا ہوگا، اس اپروچ کے ساتھ کہ امریکہ اور سعودی عرب ہمارے دوست ہیں، دہشتگردی ختم نہیں ہوسکتی۔
اسلام ٹائمز: تو آپکی نگاہ میں کیسے اقدامات کی ضرورت ہے، جس سے دہشتگردی کا خاتمہ ممکن ہو۔؟
علامہ ناصر عباس: میں سمجھتا ہوں کہ پورے پاکستان کے اندر بغیر کسی تمیز کے دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی، دہشتگردوں کے سہولت کاروں کو بےنقاب کرکے ان کے خلاف بھی کارروائی کرنا ہوگی۔ اداروں میں موجود گھس بیٹھیئے جو ضیاء الحق کی پالیسی کو آگے بڑھانے میں کردار ادا کر رہے ہیں، انہیں بھی بےنقاب کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ اپنے آپ کو امریکی بلاک سے نکلنا پڑے گا، یاد رکھیں کہ امریکہ کو اس ریجن میں ناامنی سوٹ کرتی ہے، وہ چاہتا ہے کہ خطے کے ممالک کے آپس میں تعلقات بہتر نہ ہوں۔ لہٰذا پاکستان کو اس طرف آنا پڑے گا۔
اسلام ٹائمز: ڈی آئی خان میں ٹارگٹ کلنگ رکنے کا نام کیوں نہیں لے رہی۔؟
علامہ ناصر عباس: ڈی آئی خان ایک مظلوم علاقہ ہے، یہاں کے لوگ پاکستان سے اور آپس میں محبت کرنے والے لوگ ہیں، اس علاقے کیساتھ وزیرستان لگتا ہے، اسٹریٹیجک حوالے سے بہت اہم علاقہ ہے، سی پیک کا مغربی روٹ یہاں سے گزرنے والا ہے، یہاں کئی عوامل کارفرما ہیں، زمینوں کی اہمیت بڑھ چکی ہے، ڈیرہ میں عام عوام اور غریب لوگوں کو شہید کیا جا رہا ہے، اہلیبت علیہ السلام کے ماننے والوں کو مارا جا رہا ہے، یہ ٹارگٹ کلنگ خیبر پختونخوا کی حکومت اور اس کی مثالی پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ آپ دیکھیں کہ وہاں پر جگہ جگہ پولیس اور ایف سی کی چیک پوسٹیں لگی ہوئی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ یہ پوسٹیں عوام کیلئے نہیں بلکہ دہشتگردوں کی حفاظت کیلئے بنائی گئی ہیں، جب کوئی مارا جاتا ہے تو وزیراعلٰی بات تک نہیں کرتا، یہ لوگ وہاں جاتے تک نہیں، سی سی ٹی وی فوٹیجز میں دیکھیں کہ کیسے بےخوف ہوکر لوگوں کو شہید کیا جا رہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ دہشتگردوں کو یقین ہو چلا ہے کہ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، وہ جو چاہیں کرسکتے ہیں۔ کیا آپ ڈیرہ کی تین سڑکوں کی حفاظت نہیں کرسکتے؟، اتنی چیک پوسٹیں ہونے کے باوجود قاتل کیسے قتل کرکے چلے جاتے ہیں، اس کا کوئی جواب دے گا۔؟ دراصل یہ آپس میں ملے ہوئے ہیں، آپ دیکھیں کہ جیل ٹوٹی تو انہوں نے کوئی اقدام نہیں کیا، ان کو پہلے سے پتہ تھا کہ جیل ٹوٹے گی، ڈیرہ میں جو کینٹ کا بریگیڈیئر تھا، اس نے پہلے وزٹ کیا اور بتایا کہ جیل کو کیسے محفوظ بنانا ہے، اس کی سکیورٹی کرنی ہے، اس کے بعد جیل پر حملہ ہوتا ہے، جیل کے تالے ٹوٹتے ہیں، جیل کے تمام قیدیوں کو وہ ساتھ لیکر چلے جاتے ہیں اور ساتھ میں جتنے بھی شیعہ قیدی تھے، ان کو وہاں پر شہید کردیا جاتا ہے۔
آپ اندازہ لگائیں کہ ڈی آئی خان سے لیکر وزیرستان تک کئی چک پوسٹیں آئیں، لیکن ایک بھی فائر نہیں کیا گیا، وہ محفوظ انداز میں اپنی منزل پر پہنچ گئے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جس بندے کی ڈیوٹی تھی، اس علاقے کی سکیورٹی کی، اس کو نکالا نہیں جاتا بلکہ اس کی پرموشن کی جاتی ہے۔ یہ سب جوابدہ ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ملک کا نظام درست نہیں ہے، گڑبڑ کرنے والے لوگ اداروں میں موجود ہیں، جیل ٹوٹ گئی، دہشتگرد آئے اور گزر بھی گئے، راستے میں کتنی چیک پوسٹیں لگی ہوئی ہیں، کتنے کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا گیا، کسی نے روکا تک نہیں، میں کہتا ہوں کہ پاکستان کو بربادی کی طرف لیکر جایا جا رہا ہے، شاخیں کاٹ رہے ہیں، دہشتگردی کی جڑیں نہیں کاٹ رہے، ان کو ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ پاکستان اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور میں داخل ہوچکا ہے، پاکستان کے اندر اگر درست اقدامات نہ ہوئے اور اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ فقط غریب لوگ مارے جا رہے ہیں تو یاد رکھیں کہ انکے بچے بھی مارے جائیں گے، پشاور آرمی سکول کا واقعہ ان کو جنجھوڑنے کیلئے کافی تھا۔ یہ آگ ان کے گھروں تک پہنچے گی، پہلے بھی پہنچی تھی اور آئندہ بھی پہنچے گئی، ڈیرہ میں جو رکشہ ڈرائیور اٹھارہ سال کا مارا گیا، وہ بھی کسی کا بلاول اور کسی کا حمزہ تھا۔ امام علی علیہ السلام کا قول ہے کہ حکومتیں کفر سے باقی رہ سکتی ہیں لیکن ظلم پر نہیں۔
اسلام ٹائمز: بھوک ہڑتال کے دنوں عمران خان خود چل کر آپکے پاس آئے تھے، اسکے باوجود ڈیرہ میں حالات نہیں بدلے۔؟
علامہ ناصر عباس: مجھے تو لگتا ہے ان کی حکومت بہت کمزور ہے، یہ لوگ دہشتگردوں سے خوف زدہ ہیں، پچھلے واقعات کے اندر جب عمران خان نے اپنے ایک وزیر کو فوکل پرسن بنایا تھا تو اس نے مجھے بتایا تھا کہ یہ لوگ مجھے مار دیں گے، میں نے تو یہاں رہنا ہے، یہاں ان کا ہولڈ ہے، اب اندازہ لگائیں کہ ان کے تو وزیر دہشتگردون سے ڈرتے ہیں، یہ عوام کا تحفظ کیسے کریں گے۔ یہاں تو عوامی نمائندوں کا یہ حال ہے تو یہ دہشتگردوں کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں۔ میں عمران خان سے سوال کرتا ہوں کہ ڈی آئی خان میں تو آپ کا ایک ایم پی اے موجود ہے، وہ لوگوں کے پاس کیوں چل کر نہیں جاتا۔ دیکھیں وہاں ہم پر ظلم ہو رہا ہے، لوگوں کا جانی نقصان ہو رہا ہے، ڈی آئی خان ہماری قتل گاہ بنا ہوا ہے، عمران خان کو خود وہاں پر جانا چاہیے تھا، ابھی تک کیوں نہیں کیا۔؟ عمران خان پنجاب میں تو جگہ جگہ پہنچ جاتا ہے، کسی اور صوبے میں ظلم و زیادتی ہو تو فوراً پہنچ جاتا ہے، لیکن اپنے صوبے میں یہ جانے کیلئے تیار نہیں۔ یہ پوائنٹ سکورنگ کرتا ہے، دوسروں کو نیچا دکھاتا ہے، یہ انسانی مسئلہ ہے، عمران خان کے لوگ دلیر نہیں ہیں، یہ ڈرتے ہیں، ڈرپوک حکمران دہشتگردوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
ہمیں عمران خان سے مایوسی ہوئی ہے، انہیں خود ڈی آئی خان جانا چاہیے تھا، وہاں پر ہماری زمینوں پر قبضے کئے جا رہے ہیں، تین سو ستائیں کنال سے زیادہ زمین وہاں امام بارگاہ کے نام پر وقف ہے، محکمہ اوقاف کی جانب سے نگران دور میں جعلی طور پر انتقال کرایا گیا اور قبضہ کیا گیا۔ پاکستان بننے سے پہلے وہ زمین انتقال چڑھ چکی تھی، اب اس پر قبضہ کرکے کیا پیغام دینا چاہ رہے ہیں، افسوس اس بات ہے کہ ہندوں اور عیسائیوں کی زمین پر قبضہ نہیں کیا گیا، لیکن سرکاری سرپرستی میں وہاں پر 2013ء میں یعنی نگران حکومت کے دور میں قبضہ کیا گیا۔ ہم نے بار بار کہا کہ جعلی انتقال کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے، لیکن وہ نہیں کر رہے۔ عمران خان تحریک انصاف کی بات کرتا ہے انصاف چاہتا ہے، بابا دیگ کا ایک چاول چک کرو تو پوری دیگ کا پتہ چل جاتا ہے، ہمیں افسوس ہے کہ ڈیرہ میں امن قائم کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا جا رہا، ہم کہتے ہیں کہ آرمی چیف خود دلچسپی لیں۔ چیف جسٹس اس کا نوٹس لیں۔ ہم سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے پر بھی مشاورت کر رہے ہیں۔
اسلام ٹائمز: 2018ء کے الیکشن کے حوالے کیا سوچ رہے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس: ان شاء اللہ الیکشن میں بھرپور شرکت کریں گے، لوگوں کی رہنمائی کریں گے، کوشش کریں گے کہ کسی مناسب پارٹی سے اتحاد ہو جائے، سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بھی کوشش کر رہے ہیں، بلآخر ہم ایک مذہبی سیاسی جماعت ہیں۔
اسلام ٹائمز: کیا ایم ایم اے کا حصہ بنیں گے، اگر رابطہ کیا جائے۔؟
علامہ ناصر عباس: ہم ایم ایم اے کا حصہ نہیں بنیں گے، ایم ایم اے نے جو کام کیا، کے پی کے میں ہم ابھی تک اسے بھگت رہے ہیں، ان لوگوں نے متعصب لوگوں کو بھرتی کیا، میرٹ کی پامالی کرکے تکفیریوں کو بھرتی کیا گیا، ہر ادارے کے اندر تکفیری سوچ کے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، ان لوگوں نے جو ایک بڑا کام کیا وہ یہ کہ ایجوکیشن، ہیلتھ، پولیس اور ایجنسی میں جگہ جگہ پر اپنے لوگوں کو بھرتی کیا، اگر ایم ایم اے کی کسی بھی صوبے میں حکومت آگئی تو آپ سمجھیں کہ وہ صوبہ برباد ہو جائے گا، یہ لوگ ہر ادارے میں اپنی سوچ کے حامل افراد بیٹھانا چاہتے ہیں، یہ میرٹ کے قاتل ہیں۔ ان کی چھتری تلے دہشتگرد اور انتہا پسند پرواز چڑھتے ہیں۔ ڈی آئی خان میں پولیس میں ان کے لوگ ہیں، یہ لوگوں کی ریکی کرواتے ہیں، ڈی آئی خان میں اعلٰی عہدوں پر فائز لوگوں نے مجھے بتایا ہے کہ ہمارے لئے ایم ایم اے دور میں بھرتی کئے گئے لوگ بڑا مسئلہ ہیں، اس وقت جو ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے اور قتل عام ہو رہا ہے، اس کی ایک وجہ وہ لوگ ہیں، جو اس وقت بھرتی کئے گئے۔ ایم ایم اے میں تکفیری اور انتہا پسند لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے۔
اسلام ٹائمز: کسی جماعت نے رابطہ کیا۔؟
علامہ ناصر عباس: ہمارے ساتھ پیپلزپارٹی نے رابطہ کیا ہے اور عمران خان نے بھی رابطہ کیا ہے، لیکن ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔