گردوں کے امراض ماضی کا قصہ بننے کے قریب؟
گردوں کے امراض اس وقت دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں اموات کا باعث بنتے ہیں مگر لگتا ہے کہ بہت جلد یہ مسئلہ ماضی کا قصہ بن جائے گا۔
گردوں کے امراض اس وقت دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں اموات کا باعث بنتے ہیں مگر لگتا ہے کہ بہت جلد یہ مسئلہ ماضی کا قصہ بن جائے گا۔
جی ہاں سائنسدانوں نے پہلی بار لیبارٹری میں پیشاب کی مقدار بڑھانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔
سائنسدانوں نے لیبارٹری میں تجربات کے دوران چوہوں میں اسٹیم سیلز کے ذریعے چھوٹے گردے تیار کرکے نصب کردیئے، جو کہ اضافی کچرے کو فلٹر اور خارج کرنے کے قابل ہوگئے۔
اس تحقیق کے طبی ماہرین کو گردوں کے امراض کے علاج کے لیے نیا طریقہ کار استعمال کرنے کا موقع مل سکے جبکہ وہ مختلف امراض کے حوالے سے زیادہ جان سکیں گے۔
سائنسدانوں کے مطابق مستقبل قریب میں اس کی مدد سے مریض کے اپنے ٹشوز سے گردے لگا کر پیوند کاری کرنے میں مدد مل سکے گی۔
برطانیہ کی مانچسٹر یونیورسٹی کی اس تحقیق میں گردوں کے امراض کے انقلابی طریقہ کار کی تشکیل میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔
اس تحقیق میں گردے کے انتہائی چھوٹے حصوں کڈںی گلومیریولی کو انسانی اسٹیم سیلز کی مدد سے تیار کیا گیا۔
ان حصوں کو ایک جز سے بھرا گیا جس میں موجود مالیکیولز گردوں کی نشوونما کو فروغ دیتے ہیں۔
ان مالیکیولز کا امتزاج ایک جیل جیسے جز سے کیا گیا اور پھر چھوٹے ٹکڑوں کی شکل میں چوہے کی جلد میں انجیکٹ کردیا گیا۔
تین ماہ بعد چوہوں کا معائنہ کرنے پر دریافت کیا گیا کہ گردوں کے مائیکرو اسکوپک اسٹرکچر اور فعال حصے نیفران بن گئے۔
اس کو آزمانے کے لیے تحقیقی ٹیم نے ایک فلورسینٹ پروٹین کا استعمال کیا جو اس وقت پیشاب جیسے سیال جیسی شکل اس وقت اختیار کرتے ہیں جب نیفران خون کو فلٹر کرتے ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے ثابت ہوگیا کہ یہ اسٹرکچر گردوں کے خلیات کی طرح کام کرکے خون کو فلٹر اور پیشاب بناتے ہیں، تاہم ابھی کچھ حصوں پر روشنی ڈالنا باقی ہے۔
یہ نیا اسٹرکچر ان اشیاء پر مشتمل ہے جو انسانی نیفران میں پائے جاتے ہیں جبکہ ننھی انسانی خون کی شریانیں بھی چوہے کے اندر تشکیل دی گئی جو کہ اس اسٹرکچر کی نشوونما میں مددگار ثابت ہوئیں۔
تاہم یہ چھوٹے گردے بڑی شریان سے محروم تھے اور ان کے بغیر عضو کے افعال معمول پر نہیں آسکتے۔
اب محققین ایک بڑی شریان چوہے میں ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ زیادہ خون نئے گردوں تک پہنچایا جاسکے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہر سال بیس لاکھ افراد گردے کے فیل ہونے کے مرض کے علاج کے لیے ڈائیلائسز یا پیوندکاری کراتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مگر ہم اس دریافت سے پرجوش ہیں، ہمیں یہ بڑا سنگ میل محسوس ہوتا ہے جو ایک دن مریضوں کے لیے مددگار ثابت ہوسکتا ہے، تاہم ابھی ہمیں بہت کچھ جاننا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل اسٹیم سیل رپورٹس پر شائع ہوئے۔