• صارفین کی تعداد :
  • 1745
  • 2/9/2018 7:00:00 PM
  • تاريخ :

قیامت اورمعاد کی حقیقت

قیامت کا ایک فلسفہ یہ ہےکہ عدل الہی اچھے اور برےافراد کے درمیان نیز کفار اورمومنین کے درمیان مکمل طورنافذ ہو کیونکہ دنیا میں انسان کی زندگی ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہے جس کی بنا پر سزاء وجزاء کے مقام پر عدل الہی کا مکمل نفاذ ممکن نہیں ہے ۔ اسی لئے ایک اور عالم کا ہونا ضروری ہےتاکہ عدل الہی مکمل طور پر نافذہوجیساکہ قرآن کریم اس سلسلے میں فرماتا ہے:{ أَمْ نجَعَلُ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ كاَلْمُفْسِدِينَ فىِ الْأَرْضِ أَمْ نجَعَلُ الْمُتَّقِينَ كاَلْفُجَّار}۵کیا ہم ایمان لانے اور اعمال صالح بجا لانے والوں کو زمین میں فساد پھیلانے والوں کی طرح قرار دیں یااہل تقوی کو بدکاروں کی طرح قرار دیں؟ اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتاہے :{فَنَجْعَلُ المْسْلِمِينَ كاَلمْجْرِمِينَ . مَا لَكمُ‏ كَيْفَ تحَكُمُون}۶کیا ہم مسلمانوں کو مجرمین جیسابنا دیں گے؟۔تمہیں کیا ہوگیا ہے؟تم کیسے فیصلے کرتے ہو ؟

قیامت اورمعاد کی حقیقت
 

قیامت اورمعاد کی حقیقت
تحریر : محمد لطیف مطہری کچوروی
قیامت، خدا کی رحمت ،حکمت اور عدل کی جلوہ گاہ ہے ۔قرآن کریم اس سلسلے میں فرماتاہے :{ كَتَبَ عَلىَ‏ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ  لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلىَ‏ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيه}۱اس نے رحمت کواپنے اوپر لازم کر دیا ہے، وہ تم سب کو قیامت کے دن جس کے آنےمیں کوئی شک نہیں  ضرور جمع کرے گا۔ خداکی صفات کمالیہ میں سےایک صفت رحمت ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ خدا موجودات کی حاجتوں کوپورا کرتاہے اور ان میں سے ہر ایک کی ہدایت کرتا ہے نیز انہیں کمال مطلوب تک پہنچاتا ہے ۔۲

انسان کی خلقت اوراس کی خصوصیات ایک جاودانی  زندگی  کے وجود پر دلالت کرتی ہے لہذا ایک ایسا عالم ہونا چاہیے جہاں انسان جاودانی زندگی گزار سکے۔قیامت حکمت الہیٰ کے تقاضوں میں سےایک ہےاوراس عالم کی  کسی ایسی جگہ انتہا  ہونی چاہیے جہاں ثبات و سکون حاکم ہوں تاکہ یہ عالم اپنی غرض و غایت تک پہنچ جائے  ۔خدا حق مطلق وحکیم ہے اور اس سے کوئی بھی فعل بغیر مقصدو ہدف کے سرزد نہیں ہوتا ۔ قرآن کریم فرماتاہے :{ أَ فَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَ أَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُون}۳کیا تم نے یہ خیال کیا تھاہے کہ ہم نے تمہیں عبث خلق کیاہے اور تم ہماری طرف پلٹائے نہیں جاوٴ گے؟قرآن کریم زمین و آسمان کی خلقت کے بارے میں فرماتا ہے کہ خدا نے انہیں فضول اور بیہودہ خلق نہیں فرمایا ہے۔  اسی طرح قیامت کے بارے میں فرماتا ہے :{ إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقَاتُهُمْ أَجْمَعِين}۴یقینا  فیصلےکا دن ان سب کے لئےطے شدہ ہے۔

قیامت کا ایک فلسفہ یہ ہےکہ عدل الہی اچھے اور برےافراد کے درمیان نیز کفار اورمومنین کے درمیان مکمل طورنافذ ہو کیونکہ دنیا میں انسان کی زندگی ایک دوسرے  کے ساتھ وابستہ ہے جس کی بنا پر سزاء وجزاء کے مقام پر  عدل الہی کا مکمل نفاذ ممکن نہیں ہے ۔ اسی لئے ایک اور عالم کا ہونا ضروری ہےتاکہ عدل الہی مکمل طور پر نافذہوجیساکہ قرآن کریم اس سلسلے میں فرماتا ہے:{ أَمْ نجَعَلُ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ كاَلْمُفْسِدِينَ فىِ الْأَرْضِ أَمْ نجَعَلُ الْمُتَّقِينَ كاَلْفُجَّار}۵کیا ہم ایمان لانے اور اعمال صالح بجا لانے والوں کو زمین میں فساد پھیلانے والوں کی طرح قرار دیں یااہل تقوی کو بدکاروں کی طرح قرار دیں؟   اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتاہے :{فَنَجْعَلُ المْسْلِمِينَ كاَلمْجْرِمِينَ . مَا لَكمُ‏ كَيْفَ تحَكُمُون}۶کیا ہم مسلمانوں کو مجرمین جیسابنا دیں گے؟۔تمہیں کیا ہوگیا ہے؟تم کیسے فیصلے کرتے ہو ؟

معادعود سے مشتق ہے جس کا لغوی معنی بازگشت یعنی لوٹنا ہے ۔شرعی اصطلاح میں قیامت کے دن بدن میں روح کی بازگشت کا نام معاد ہے ۔لہذا معاد روح اور جسم دونوں سے مربوط ہے یعنی معاد،جسمانی بھی ہے اور روحانی بھی ۔ آخرت میں ملنے والی جزائیں ا و رسزائیں دو قسم کی ہیں ۔بعض جزائیں او رسزائیں عقلانی اور روحانی ہیں جن کو درک کرنے کے لئے حواس کی ضرورت نہیں ہے جیسے گنہگار افراد کاجان لیوا غم و اندوہ اور متقی افراد کا خدا کی رضا و خوشنودی کو درک کرنا۔

قرآن کریم اس جان لیوا غم و اندوہ کے بارےمیں فرماتا ہے:{ كَذَالِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيهْم}۷اس طرح اللہ ان کےاعمال کو سراپا حسرت بنا دکھائے گا۔ اسی طرح خدا کی خوشنودی کو درک کرنےکے بارے میں فرماتا ہے:{ وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللَّهِ أَكْبر}۸اور اللہ کی طرف سے خوشنودی تو ان سب سے بڑھ کر ہے۔ بعض جزائیں ا ور سزائیں جسمانی اور قابل حس ہیں جن کو درک کرنے کے لئے بدن کی ضرورت ہے ۔قرآن کریم اور روایات میں اس قسم کی جزاء و سزاء کی تفصیل بیان ہوئی ہے جنہیں عملی جامہ پہنانے کے لئے  بدن اور قوائے حسی کی ضرورت  ہے ۔

معاد جسمانی پر  صریحاً دلالت کرنے والی آیات کے علاوہ اور بھی بہت ساری آیتیں معاد جسمانی پر دلالت کرتی ہیں ۔اس سے مراد وہ آیتیں ہیں جن میں منکرین معاد کی باتوں کا  تذکرہ کیا گیاہے ۔ان آیات کے مطابق جس چیز کو منکرین معاد  بہت بعید سمجھتے ہیں وہ انسان کے مرنے اور اس کےبدن کےگل سڑ کر مٹی میں تبدیل ہو جانےکے بعد  دوبارہ زندہ ہو جانا ہے۔قرآن کریم اس کےجواب میں خدا کی وسعت علمی اور قدرت مطلقہ کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔۹{قُلْ يحُيِيهَا الَّذِى أَنشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ  وَ هُوَ بِكلُ‏ خَلْقٍ عَلِيم }یسین،79۔آپ کہہ دیجئے جس نے اسےپہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہی زندہ بھی کرے گا اور وہ ہر مخلوق کو بہتر جاننے والا ہے ۔{أَ وَ لَمْ يَرَوْاْ أَنَّ اللَّهَ الَّذِى خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضَ وَ لَمْ يَعْى بخِلْقِهِنَّ بِقَدِرٍ عَلىَ أَن يُحِىَ الْمَوْتىَ‏  بَلىَ إِنَّهُ عَلىَ‏ كلُ‏ شىَ‏ءٍ قَدِير}کیا انہوں نے نہیں دیکھا جس نےزمین و آسمان کو پیدا کیا ہے اور ان کی تخلیق سے عاجز نہیں تھا وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کر دے  کہ یقینا وہ ہر شئی پر قدرت رکھنے والا ہے۔

لہذا اگر معاد جسمانی لازم نہ ہوتی تومنکرین معاد کے لئے سادہ جواب معاد جسمانی سے انکار کرنا تھااور منکرین معاد کے شبہات کے جواب میں خدا کی قدرت مطلقہ ، نامحدود علم اور پہلی خلقت کی نسبت دوسری خلقت کے آسان ہونے نیز بہت ساری مثالوں کے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی ۔بنابریں  مذکورہ نکات پر دلالت کرنے والی آیات ہر گز قابل تاویل نہیں ہیں اور جو لوگ معاد جسمانی پر دلالت کرنے والی آیات کی تاویل کرتےہیں ایسی تاویلیں قابل قبول نہیں ہیں ۔ محقق طوسی   معاد جسمانی پر دلالت کرنے والی آیات  کے متعدد ہونے کا  تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :{و اکثره مما لا یقبل التاویل}اس کے بعد وہ بعض آیات کو بطور نمونہ پیش کرتے ہیں ۔۱۰

انسان کی دنیوی زندگی مرنے کےبعد ختم ہو تی ہے اور انسان مرنے کے بعد دوسرے عالم یعنی برزخ کی طرف منتقل ہو تا ہے  اور آخر میں وہ عالم آخرت کی طرف منتقل ہو تا ہے  جہاں اسے اپنے اعمال کی جزاء و سزاء کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ لہذادرحقیقت  انسان تین قسم کی زندگی گزارتاہے :1۔ دنیوی زندگی 2۔برزخی زندگی 3۔اخروی زندگی۔ 

انسان کی  دنیوی زندگی میں مختلف مراحل پائے جاتے ہیں جن میں سےاہم ترین مرحلہ بلوغ  کا  زمانہ ہے ۔ اس مرحلے میں وہ اپنی اخروی زندگی  کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے کہ وہ صالح و پرہیزگار افرادکی صف میں شامل ہوگا یا گنہگار و بد کار افرا د کی صف میں!اہل جنت میں سے ہوگایا اہل دوزخ میں سے!

قیامت کے دن انجام پانے والے بعض اہم امور حسب ذیل ہیں:

1۔حساب و کتاب:
قیامت کے دن لوگوں  کے اعمال کا  حساب ایک خاص طریقے سے ہوگااور اس کے بعد ان کے بارے میں فیصلہ سنایا جائے گا۔اس عمل کا ایک طریقہ  یہ ہے کہ ہر انسان کے ہاتھ میں اس کا نامہ اعمال دیا جائے گا تاکہ وہ خود اپنے اعمال  کے حساب و کتاب سے آگاہ ہو سکے ۔{وَ كُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائرِهُ فىِ عُنُقِهِ وَ نخُرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَائهُ مَنشُورًا۔ اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَى‏ بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا } اور ہم نے ہر انسان کے نامہ اعمال کو اس کی گردن میں آویزاں کر دیا ہےاور روز قیامت اسے ایک کھلی ہوئی کتاب کی طرح پیش کر دیں گے۔   ۱۱علاوہ ازیں انبیاء و ائمہ اہلبیتعلیہم السلام اور فرشتے ان کے اعمال کے بارے میں گواہی دیں  گے۔۱۲

 قیامت کے دن عدل و انصاف کا میزان قائم ہوگاجس میں انسان کے اعمال کا عادلانہ وزن کیا جائے گا اور کسی نفس پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا ۔۱۳ قیامت کےدن انسان کے اعضاء و جوارح بھی گواہی دیں  گے ۔۱۴اسی طرح قیامت کے دن انسان  کے اعمال مجسم ہوں گے جو سب سے زیادہ دقیق حساب ہوگا۔۱۵

2۔صراط:
اسلامی روایات  کے مطابق قیامت  کےدن ایک خاص راستہ ہو گا جس سے ہر ایک کو گزرنا ہوگا ۔روایت میں اس مخصوص راستے کا نام{ صراط }ذکر ہوا ہے ۔صراط جہنم کے درمیان یا اس کے اوپر سے گزرنے والا راستہ ہے اور جو بھی اس راستے سے گزر جائے گا وہ جنت میں داخل ہو گا لیکن جو اس راستے کو طےنہیں کر سکے  گا وہ جہنم میں داخل ہوگا ۔ مفسرین نے سورہ مریم کی آیت 71،72 کو بھی اسی کی دلیل قرار دیا ہے ۔۱۶

3۔ اعراف:
جنت اور جہنم کے درمیان موجود ایک مقام کا نام اعراف ہے ۔اس مقام پر کچھ بزرگ ہستیاں ہوں  گی جو بہشتیوں اور جہنمیوں کو ان کے چہروں سے پہچان لیں گی ۔یہ افراد میدان قیامت میں فیصلہ کرنے والے ہیں ۔یہ عظیم ہستیاں انبیاء اوران کےاوصیاء ہوں  گی۔۱۷

4۔لواء الحمد:
جب لوگوں سے حساب و کتاب لینےکا کام مکمل ہوجائے گا اور بہشتیوں اور جہنمیوں کی قسمت واضح ہو جائے گی تو  خدا وند متعال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں ایک پرچم دے گا جس کانام لواء الحمد ہو گا اور آپ  ؐ بہشتیوں کے آگے آگے بہشت کی طرف بڑھیں گے ۔۱۸

5۔حوض کوثر:
اسلامی احادیث کے مطابق میدان محشر میں ایک بڑاحوض ہو گا  جو حوض کوثر  کے نام سے مشہور ہے ۔پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے پہلے اس حوض پر پہنچیں گے اور ا مت کے نجات یافتہ افراد پیغمبر اکرمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلماور ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے ہاتھوں اس حوض سے سیراب ہوں  گے ۔

حوالہ جات:

۱۔انعام،12۔

۲۔المیزان،ج7،ص25۔

۳۔مومنون ،115۔

۴۔دخان،40۔

۵۔ص،28۔

۶۔قلم ،35،36۔

۷۔بقرۃ،167۔

۸۔توبہ،72۔

۹۔احقاف،33۔

۱۰۔تلخیص المحصل،ص394۔

۱۱۔اسراء،13 -14}

۱۲۔نحل،89۔ بقرۃ،143۔ ق ،18- 21 ۔زلزال،۴.

۱۳۔انبیاء،47۔

۱۴۔فصلت20.

۱۵۔توبہ،34،35۔ ۔زلزال،6-  ۔ کہف،   49.

۱۶۔مریم ،71،72

۱۷۔اعراف،46۔

۱۸۔بحار الانوار ،جلد،8باب،18،احادیث 1،12۔مسند احمد،ج3،ص144۔