انتظارِ امام زمانہ ﴿عج﴾ کی تڑپ اور ظھور کی کیفیات
ایک ھستی جس کے انتظار کی تڑپ کو بارہ سو برس ھو رھے ہیں کہ آپ تشریف لے آئیں، بارہ سو برس ھوچلے ہیں، سینکڑوں نھیں بلکہ کروڑوں انسان اس امید کا دیا جلائے منتظر پھر رھے ہیں کہ آپ کی تشریف آوری ھو۔
ایک ھستی جس کے انتظار کی تڑپ کو بارہ سو برس ھو رھے ہیں کہ آپ تشریف لے آئیں، بارہ سو برس ھوچلے ہیں، سینکڑوں نھیں بلکہ کروڑوں انسان اس امید کا دیا جلائے منتظر پھر رھے ہیں کہ آپ کی تشریف آوری ھو۔ ان بارہ سو برسوں میں کتنے لوگ ہیں، جو اس آس اور امید کا دیا جلائے رخصت ھوئے، شائد اس کا حساب ممکن نہ ھو، اس لئے کہ یھاں والدین اپنی اولادوں کو ان کی آمد کا مژدہ سناتے رھے اور انھیں جانا پڑا، ھم سب جانتے ہیں کہ مائیں آج بھی بچوں کو ان کے انتظار کی گھٹی پلا کر جوان کرتی ہیں۔ خواتین، مرد، بچے، بوڑھے، جوان، ھر مذھب، مسلک، مکتب اور خطہٴ ارضی و سماوی کی مخلوقات اور آدم زاد ان کے ظھور کی حسرت دل میں لئے سفر زیست کو آگے بڑھا رھے ہیں۔ ھمارے چمن زیست میں اگر کچھ خوشبو معطر کئے ھوئے ہیں تو اس کی وجہ آپ کی آمد اور ظھور کا مژدہ ہے، ھر سو آپ کی آمد اور اچانک ظاھر ھونے کی خبریں ہیں۔ پھول، کلیاں، گلستان، خوشبو بکھیرتے ہیں کہ آپ تشریف لانے والے ہیں۔ شمع آپؑ کے فراق کو برداشت نھیں کر پاتی اور لاکھوں اشک بھا کر آپؑ سے التفات کا اظھار کرتی ہیں، بُلبل اپنی زبان میں آپؑ کی تڑپ میں غزل سرا رھتا ہے، عاشقان خون کے آنسو بھا کر آپؑ کی یاد میں مارے مارے پھرتے ہیں، ھر ایک آپؑ کے دیدار کامشتاق ہے، ھر ایک آپؑ سے ارتباط کا خواھش مند ہے، ھر ایک آپؑ کی زیارت کیلئے تڑپتا ہے۔۔۔۔۔
یہ تڑپ، یہ بے قراری، یہ آرزوئے ملاقات، یہ خواھش دیدار۔۔۔۔۔ وقت گذرنے کے ساتھ۔۔۔ آتش عشق و آرزوئے وصال میں شدت پیدا کر رھے ہیں۔ لٰھذا دعائیں کی جاتی ہیں کہ دیدار نصیب ھو۔۔۔۔۔ مناجات و ورد کیا جاتا ہے کہ آپؑ کی زیارت ھو، آنسو بھائے جاتے ہیں کہ مولاؑ تشریف لے آئیں، کیسی کیسی اُمیدیں ہیں، جو آپ کے ظھور پر موقوف ہیں۔۔۔۔۔۔ کتنے فیصلے ہیں جو صرف آپؑ کی آمد کے اعلان کے ساتھ مربوط ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ! وہ لوگ جو انتظار کر رھے ہیں، جنھیں آپؑ کا منتظر ھونے کا اعزاز حاصل ہے، جو آپؑ کے فراق میں تڑپتے ہیں اور وصال کیلئے آتش عشق کو جلائے ھوئے ہیں، اس دنیا کے خوش نصیب ترین لوگ ہیں۔ ان کا عشق بھی عجیب ہے، یہ بن دیکھے کا عشق ہے، یہ صدیوں پہ محیط عشق ہے، یہ صبر بلکہ برسوں کے صبر کا مثالی نمونہ و عشق ہے، یہ عجیب عشق ہے کہ پروانے انتظار میں ہیں کہ شمع روشن ھو اور وہ اس پہ قربان ھو جائیں۔ باغ عسکری کا یہ مقدس پھول 15 شعبان المعظم کو کھلا اور چھار سو اپنی خوشبو سے ماحول کو معطر کر دیا۔ آپ کے میلاد پاک کے مبارک دن کی مناسبت سے ان کیساتھ اپنی عقیدت و محبت کی لو تیز کرنے کا دن ہے۔
امام عصر﴿عج﴾ کا خوبصورت فرمان ہے کہ "میں خاتم الاوصیاء ھوں، اللہ عزوجل میرے وسیلہ سے میرے خاندان اور میرے شیعوں کے مصائب و مشکلات ٹال دے گا" اور آپؑ کا یہ فرمانا کس قدر خوبصورت ہے کہ "میری غیبت کے زمانہ میں مجھ سے عوام کو اس طرح فائدہ پھنچے گا، جس طرح سورج بادلوں کی اوٹ میں چلا جائے تو اس کے فوائد زمین والوں کو حاصل ھو رھے ہوتے ہیں۔" آپ کی آمد اور خواصان خدا سے ملاقاتیں اپنی جگہ اھم اور درست بات ہے، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ آٗئمہ نے آپ کے ظھور پرنور کا وقت معین کرنے سے منع فرمایا۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے ایک صحابی نے آپ سے ظھور کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ’’جو لوگ ظھور کا وقت معین کریں، وہ جھوٹے ہیں، جو لوگ ظھور کا وقت معین کریں وہ جھوٹے ہیں، جو لوگ ظھور کا وقت معین کریں وہ جھوٹے ہیں۔‘‘ لھذا اس طرح کی روایات سے اچھی طرح یہ نکتہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ھمیشہ کچھ لوگ شیطانی مقاصد کے تحت امامؑ کے ظھور کا وقت معین کرتے رھتے ہیں اور ایسے افراد آئندہ بھی پائے جائیں گے۔ یھی وجہ ہے کہ آئمہ معصومین علیھم السلام نے اپنے شیعوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ ظھور کے لئے وقت معین کرنے والوں کے سامنے خاموش نہ رھیں بلکہ ان کی تکذیب کی جائے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام اس سلسلہ میں اپنے ایک صحابی سے فرماتے ہیں:’’ظھور کے لئے وقت معین کرنے والوں کو جھٹلانے میں کسی کی کوئی پرواہ نہ کرو، کیونکہ ھم نے کسی کے سامنے ظھور کا وقت معین نھیں کیا ہے۔‘‘ ھم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگوں کو آپ کے ظھور سے بذات خود آپ کی ذات اقدس سے بھی زیادہ جلدی ہے، لوگوں کو یہ بات فراموش نھیں کرنا چاھیئے کہ آپ حکم خدا سے غائب ہیں اور حکم و اذن خدا سے ھی ظاھر ھونگے اور جب ظاھر ھونگے تو دنیا کے ھر کونے میں آپ کی آواز پھنچے گی۔ کتب میں آپ کے قیام کے واقعات و کیفیات نقل ھوئے ہیں، ھمیں تمام مکاتیب فکر کی کتب میں لکھا ملتا ہے کہ جب ظلم و ستم اور تباھی دنیا کو تاریک اور سیاہ کر دے گی اور جب ظالم و ستمگر لوگ اس وسیع زمین کو بْرائی کا میدان بنا دیں گے اور دنیا بھر کے مظلوم ظلم و ستم سے پریشان ھو کر مدد کے لئے اپنے ھاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کریں گے، اچانک آسمانی آواز رات کی تاریکیوں کو چیر دے گی اور ماہ خدا، ماہ رمضان میں امام مھدی ﴿عج﴾کے ظھور کی بشارت دے گی۔ دل دھڑکنے لگیں گے اور آنکھیں خیرہ ھو جائیں گی! رات بھر عیاشی کرنے والے، صبح ایمان کے طلوع سے مضطرب اور پریشان راہ نجات تلاش کریں گے اور امام مھدی ﴿عج﴾ کے منتظرین اپنے محبوب امام کی تلاش میں ھر ایک سے آنحضرت کا نشان اور پتہ پوچھتے پھر رھے ھوں گے اور آپ کے انصار و مددگار کے زمرے میں شامل ھونے کے لئے بے چین ھوں گے۔
اس موقع پر سفیانی جو کئی ملکوں پر قبضہ کئے ھوگا، جیسے شام (سوریہ)، اُردن، فلسطین، وہ امام سے مقابلہ کے لئے ایک لشکر تیار کرے گا۔ سفیانی کا لشکر جو امام سے مقابلہ کیلئے مکہ معظمہ کے راستہ پر روانہ ھوگا، لیکن جیسے ھی ’’بیداء‘‘ نامی جگہ پر پھنچے گا تو زمین میں دھنس کر نابود ھو جائے گا اور نفس زکیہ کی شھادت کے کچھ ھی مدت بعد امام مھدی ﴿عج﴾ایک جوان مرد کی صورت میں مسجد الحرام میں ظھور فرمائیں گے۔ کچھ یوں کہ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کا پیراھن زیب تن ھوگا اور رسول خدا﴿ص﴾ کا پرچم لئے ھوں گے اور خانہ کعبہ کی دیوار سے ٹیک لگائے ھوئے رکن و مقام کے درمیان ظھور کا زمزمہ کریں گے اور خداوند عالم کی حمد و ثناء اور محمد و آل محمد پر درود و سلام کے بعد خطاب فرمائیں گے:’’اے لوگو! ھم خداوند قادر سے مدد طلب کرتے ہیں اور جو شخص دنیا کے کسی بھی گوشے میں ھماری آواز پر لبیک کھے تو اسے نصرت و مدد کیلئے پکارتے ہیں اور پھر اپنی اور اپنے خاندان کی پھچان کراتے ھوئے فرمائیں گے:(فَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْنَا لاٰتَخْذُلُوْنَا وَ انْصُرُونَا یَنْصُرْکُمُ اللّٰہ تَعالیٰ) ’’ھمارے حقوق کی رعایت کے سلسلہ میں خدا کو نظر میں رکھو اور ھمیں (عدالت قائم کرنے اور ظلم کے مقابلہ میں) تنھا نہ چھوڑو، ھماری مدد کرو کہ خداوند عالم تمھاری مدد فرمائے گا۔‘‘
امام ﴿عج﴾ کی گفتگو تمام ھونے کے بعد اھل آسمان اھل زمین پر سبقت کریں گے اور گروہ در گروہ آکر امام کی بیعت کریں گے، حالانکہ ان سے پھلے فرشتہ وحی جناب جبرائیل امام کی خدمت میں حاضر ھو کر آپ کی ھمراھی کریں گے اور اس کے بعد 313 زمین کے ستارے مختلف مقامات سے سرزمین وحی (یعنی مکّہ معظمہ) میں جمع ھوکر امامت کے پْرنور سورج کے چاروں طرف حلقہ بنالیں گے اور وفاداری کا عھد و پیمان باندھیں گے اور یہ سلسلہ جاری رھے گا، یھاں تک کہ دس ھزار جاں بکف سپاھیوں کا لشکر امام کے لشکر گاہ میں جمع ھو جائے گا اور فرزند رسول سے بیعت کرے گا۔ امامؑ اپنے انصار کے عظیم لشکر کے ساتھ پرچم قیام لھراتے ھوئے بھت تیزی سے مکہ اور قرب و جوار کے علاقوں پر غالب آجائیں گے اور سرزمین پیغمبر کو نااھلوں کے وجود سے پاک کر دیں گے اور سرکش لوگوں کو مغلوب کریں گے۔ اس کے بعد عراق کا رخ فرمائیں گے اور شھر کوفہ کو اپنی عالمی حکومت کا مرکز قرار دیں گے اور وھاں سے اس عظیم انقلاب کو نظم و ھدایت فرمائیں گے۔ حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام نے فرمایا:’’اگر دنیا کی عمر کا ایک دن بھی باقی رہ جائے تو خداوند عالم اس دن کو اتنا طولانی کر دے گا کہ میری نسل سے ایک شخص قیام کرے گا اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا، جیسا کہ وہ ظلم و ستم سے بھرچکی ھوگی اور یہ بات میں نے پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ سے سنی ہے۔‘‘ امام کا فرمانا اور حضرت مھدی﴿عج﴾ کا تشریف لانا ایک اٹل خدائی فیصلہ ہے، جو دنیا کے ایک دن کیلئے باقی رہ جانے پر بھی ھو کر رہیگا، لھذا اس کی تیاری اور اپنی حالت کا احتساب اور جائزہ ضرور لینا چاھیئے۔
دوستان و عاشقان حضرت صاحب الامر والزمان ﴿عج﴾ کی صف میں شمار ھونا یقیناً ایسی سعادت و عبادت ہے، جس کا شاید کوئی تقابل نہ ھو، مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس مقام و مرتبہ کو پانے کیلئے جس پاکیزگی قلب، طھارت روح و نظر، انسانیت سے محبت، درد مند دل اور تقویٰ و پرھیز گاری کی ضرورت ہے، وہ ھم میں بدرجہ اتم موجود ہے۔۔۔۔۔ ھمیں اس روز (15 شعبان) کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے، اپنے اعمال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، اپنے روز مرہ معمولات پر تنقیدی نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ اگر ھم اپنا احتساب کر رھے ھوں تو حقیقی منتظر کھلانے کے حق دار ھونگے۔
متفق علیہ حدیث پاک ہے کہ "جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مرا وہ جاھلیت کی موت مرا۔" امام العصرؑ کی معرفت کے زینے طے کرنے کیلئے میدان عمل میں رھنا ضروری ہے اور جو دوست و خواھران میدان عمل میں رھتے ہیں، انھیں خود احتسابی کی عادت ضرور ڈالنی چاھیئے۔ ہر عمل کا جائزہ لیں کہ یہ خدا کی طرف پرواز اور قربت کا باعث ہے یا دشمنان خدا سے تعلق کی مضبوطی کا ذریعہ ہے۔ اگر سفر بہ خدا ہے تو یقیناً ھم زمانے کے امام کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ھوں گے۔ یوم میلاد امام زمانہ ﴿عج﴾ کے دن خود احتسابی و جائزہ اعمال کے طور پر منائیں۔ اُمید ہے کہ اگر ھم نے احتساب و جائزہ اعمال کیا تو ھماری بے قراری، ھماری دعائیں، ھماری مناجات، ھماری خواھش دیدار و ملاقات اور آرزوئے وصال معرفت امامؑ کا ذریعہ بن سکتے ہیں اور ھم حقیقی منتظر کھلا سکیں گے۔
دیکھیں کہ کون کتنے پانی میں ہے، آیا ھم اس قابل ہیں کہ خود کو ان مثالی لوگوں سپاھیان امام کے ساتھ کھڑا کرسکنے کی جرات کریں؟ ھمارے دلوں میں دنیا کی محبت نے گھر کیا ھو اور ھم امام کے سپاھی بن جائیں یہ ممکن نھیں، کوئی اس دھوکہ و فریب میں نہ رھے کہ وہ سچی بیقراری کے بغیر امام کا سپاھی بن جائے گا اور امام کی قربت اسے حاصل ھو جائے گی۔ ھمیں اپنا محاسبہ کرنا ھوگا، اس سے پھلے کہ کوئی عدل نافذ کر دے اور ھم آمادہ و تیار ھی نہ ھوں۔ ذرا جائزہ لیں کہ ھماری محبت اور تڑپ علی ابن مھزیار جتنی ہے، جس نے کتنے ھی حج اس امید اور تڑپ کے ساتھ انجام دیئے کہ دیدا ر نصیب ھو جائے اور بالآخر اسے یہ سعادت نصیب ھوگئی، ملاقات ھوگئی، محفل یاران میں بیٹھنے کا اذن نصیب ھوا۔ ھمیں جائزہ لینا ہے، ھمیں احتساب کرنا ہے، ھمیں دنیا کی آلائشوں اور فساد سے خود کو دور رکھنا ھوگا۔ ھم جب اپنے آس پاس دیکھتے ہیں، ارد گرد نظر دوڑاتے ہیں یا پھر دنیا پہ نظر دوڑاتے ہیں، کئی دفعہ مشکلات کے پھاڑ سامنے پاتے ہیں، ایسی ایسی رکاوٹیں اور مشکلات، ایسی ایسی سازشیں کہ احساس ھوتا ہے کہ اب ھم اس سے نھیں نکل پائیں گے، بربادی ھمارا مقدر ھوگی، تباھی کو کوئی ٹال نھیں سکتا، ایسا محسوس ھوتا ہے کہ بڑی تباھی آنے والی ہے اور ناگھانی آفات گھیرنے والی ہیں، مشکلات اور مصائب پھاڑ کی صورت سامنے دکھائی دیتے ہیں اور ان سے بچ نکلنے کی کوئی راہ سجھائی نھیں دے رھی ھوتی کہ کیا ھوتا ہے۔ھم حیران و ششدر دیکھتے رہ جاتے ہیں اور مشکل کا پتہ ھی نھیں چلتا، یکایک مشکلات ٹل جاتی ہیں، مصائب اور پریشانیاں کافور ھو جاتی ہیں، غالب دکھائی دینے والا دشمن مغلوب ھو جاتا ہے، کسی کے وھم و گمان اور سوچ و فکر میں بھی نھیں ھوتا کہ یوں مشکلات سے جان چھوٹ جائے گی، مگر ایسا ھوتا ہے اور ایک بار نھیں بار بار ھوتا ہے۔۔۔۔۔
یھی وہ فائدہ ھوتا ہے، جو بادلوں کی اوٹ سے سورج پھنچا رھا ھوتا ہے۔ یھی وہ فائدہ ہے، جو ھمیں امام سے حاصل ھوتا ہے، مگر ھم احساس نھیں کرتے۔۔۔۔ اور اس وجہ سے ھمارے عرفاء بزرگان کھتے ہیں کہ ھم (اھل تشیع) بغیر صاحبؑ ( سرپرست و ولی) کے نھیں ہیں۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ ھم اس کا ادراک کریں یا نہ کریں۔۔۔۔۔۔۔۔ ھم ایسے الطاف و اکرام پر آپؑ کی طرف متوجہ ھوں یا نہ ھوں۔۔۔۔ ان کا لطف و کرم جاری رھتا ہے، ان کے کرم کے سایہ کی چھت ھمیشہ تنی رھتی ہے۔ ھمارا امام ھمیں کبھی تنھا نھیں چھوڑتا، ھم ان کی حکومت میں زندگی بسر کر رھے ہیں، ھم ان کے رعایا ہیں، ھم ان کے حکم کے پابند ہیں، ھم ان کے کرم کے سائے تلے ہیں، اس بات کا احساس ان لوگوں کو بخوبی ہے جو باطل کے سامنے سینہ سپر میدان عمل میں ہیں اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کیلئے ھجرت کرچکے ہیں، کوئی سیدہ زینب سلام کے روضہ کے تقدس کیلئے اپنے آپ کو پیش کرچکا ہے تو کوئی سامرہ میں وقت کے امام کے اجداد کی جائیداد اور ان کے مزارات و علامات کے تحفظ کیلئے سینہ تانے کھڑا ہے۔ آج صحیح معنوں میں ایسے ھی مجاھدوں سے امام کا ارتباط ہے، انھی کو پل پل رھنمائی ملتی ہے، انھی کو دشمن کے مقابل قوت ملتی ہے، انھی کو آپ کی قربت اور دیدار کی سعادت حاصل ھوتی ہے، آل سعود کے ولی عھد کو آج جن سے خوف و خطرہ محسوس ھو رھا ہے، وھی امام کے سپاھی ہیں اور ان کا سردار یعنی رھبر عظیم الشان و مرتبت اس قافلہ منتظران حقیقی کے سالار ہیں، ھمیں ان کی اطاعت اور رھبری پر افتخار ہے۔
تحریر: ارشاد حسین ناصر