امریکہ کے ناقابل اعتماد اتحادیوں کی شکست
شام کے شہر عفرین پر ترکی کی فوجی جارحیت کے بعد بہت سے تجزیے پیش کئے گئے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام میں امریکی حکمت عملی ناکامی کا شکار ہو چکی ہے۔
تحریر: مصطفی اسلامی
شام کے شہر عفرین پر ترکی کی فوجی جارحیت کے بعد بہت سے تجزیے پیش کئے گئے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام میں امریکی حکمت عملی ناکامی کا شکار ہو چکی ہے۔ امریکہ آج ایسے مقام پر کھڑا ہے کہ اس کے دو انتہائی قریبی اتحادی آپس میں ہی لڑائی کر رہے ہیں۔ اگرچہ ترکی اور کردوں کے درمیان مسلح جھڑپیں مغربی ایشیائی خطے کی تاریخ کا مستقل حصہ رہی ہیں لیکن موجودہ دور اس خاطر خطے کیلئے اہم موڑ قرار دیا جا رہا ہے کہ اس وقت خطے میں امریکہ کا کوئی قابل اعتماد اتحادی موجود نہیں۔ حتی بعض سیاسی ماہرین کی نظر میں خطہ امریکی طاقت کے زوال کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام کے شمال اور شمال مشرقی حصوں میں جہاں زیادہ تر کرد باشندے بستے ہیں، تیس ہزار فوجی تعینات کرنے کا عندیہ دے رکھا تھا لیکن آج وہ ایسی جنگ کا مشاہدہ کر رہے ہیں جو کم از کم ظاہری طور پر ان کی اور ان کے دیگر ہم فکر سیاستدانوں کی مرضی کے خلاف ہے۔
ایک طرف امریکہ کرد باشندوں کے تعاون کا شدید محتاج ہے تو دوسری طرف ترکی اپنی سرحد کے ساتھ ساتھ ایک ایسا بفر زون قائم کرنے پر بضد نظر آتا ہے جو کرد فوجی اتحاد ایس ڈی ایف یا سیرین ڈیموکریٹک فورسز سے عاری ہو۔ اپنے اتحادیوں کی صلاحیتوں اور توقعات کی درست شناخت میں ناکامی اور کردوں میں طاقت کی تقسیم نہ کر پانا حالیہ دنوں میں خطے میں امریکہ کی دو بڑی ناکامیاں قرار دی جا رہی ہیں۔ یہی دو ایشوز گذشتہ کچھ عرصے میں امریکہ کیلئے بہت سی بنیادی مشکلات کا باعث بنے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام کی تقسیم پر مبنی امریکہ کا طویل المیعاد منصوبہ شکست کی جانب گامزن ہے۔ امریکہ نے شام کی تقسیم پر مبنی پس منظر کی بنیاد کردوں کی طاقت پر استوار کر رکھی تھی لیکن اب خطے کی سیاسی صورتحال ایسی سمت میں رواں دواں ہے جو اس پس منظر اور حکمت عملی کی نابودی کی عکاسی کرتی نظر آتی ہے۔
امریکہ کی شام میں کردوں کی ضرورت
گذشتہ چند برس کے دوران سیرین ڈیموکریٹک فورسز نے شام میں امریکی پالیسیوں کیلئے اتحادی اور دائیں بازو جیسا کردار ادا کیا ہے جس کے باعث امریکی حکام شدت سے کردوں کی طاقت اور اثرورسوخ میں اضافے کے خواہش مند نظر آنے لگے۔ امریکہ کیلئے شام ایک ایسے ملک کے طور پر ہر گز قابل قبول نہیں جو علاقائی سالمیت اور استحکام کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ خطے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کا سرگرم رکن بھی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی حکومت کھلم کھلا اور ڈھکے چھپے شام کی مرکزی حکومت کو کمزور کرنے اور شام کو تقسیم کرنے کی پالیسیوں پر عمل پیرا نظر آتا ہے۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے المیادین نیوز چینل نے اعلان کیا کہ پانچ ممالک امریکہ، برطانیہ، فرانس، اردن اور سعودی عرب نے شام سے متعلق ایک متفقہ اعلامیہ جاری کیا جس میں شام بحران کے بارے میں ان ممالک کا نقطہ نظر بیان کیا گیا ہے۔
اس غیر سرکاری بیان میں شام کیلئے اقوام متحدہ کے خصوص ایلچی اسٹیفن دی میستورا سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ شام کے آئین میں ترمیمات، شام کے صدارتی انتخابات کیلئے آزاد ماحول کی فراہمی اور آئندہ صدارتی انتخابات میں بیرون ملک مقیم شامی شہریوں کی شرکت کو یقینی بنانے جیسے موضوعات کو ویانا میں انجام پانے والے مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل کریں۔ اسی طرح اس اعلامئے میں شام کے صدر اور وزیراعظم کے اختیارات، پارلیمنٹ کے ڈھانچے، عدلیہ کی خودمختاری، وفاقی حکومت، شام کے تمام باشندوں کی آزادی اور حقوق کی ضمانت کی فراہمی، شام کے سکیورٹی نظام کی اصلاح اور انتخاباتی قوانین میں تبدیلی کا جائزہ لینے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ اگرچہ اس اعلامئے میں شام میں عبوری حکومت کی تشکیل اور صدر بشار اسد کی اقتدار سے علیحدگی کی جانب کوئی اشارہ نہیں کیا گیا لیکن "وفاقیت" کے تحت ملک کو چند خطوں میں تقسیم کرنے، وسیع اختیارات کی حامل علاقائی حکومتوں کی تشکیل اور شام کو اقوام متحدہ کی براہ راست سرپرستی میں دینے پر زور دیا گیا ہے۔
شام کی تقسیم کا منصوبہ اس ملک سے متعلق امریکہ کی بنیادی حکمت عملی کا حصہ رہا ہے۔ امریکہ شام کو مختلف حصوں میں بانٹ دینے اور ان میں سے جغرافیائی لحاظ سے اہم ترین حصہ کردوں کے حوالے کر دینے کی کوشش میں مصروف ہے۔ امریکہ مسلسل شام کی سرزمین کے حصے بکھڑے کرنے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتا آیا ہے۔ امریکی تھنک ٹینک CFR یا خارجہ تعلقات کونسل نے اپنے ایک تجزیے میں شام سے متعلق امریکی دلچسپی کے امور کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ امریکی حکومت کو کردوں سے کئے گئے وعدوں پر عمل کرنا چاہئے۔ ڈالٹن اس کالم میں لکھتا ہے: "امریکہ کو چاہئے کہ وہ اپنے نیٹو اتحادی ترکی کی براہ راست مخالفت کرتے ہوئے سیرین ڈیموکریٹک فورسز کا ساتھ دے اور انہیں ہر قسم کا مالی، فوجی، مشورتی اور ٹریننگ سے متعلق تعاون فراہم کرے۔"
واشنگٹن مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ذیلی شعبے ترکی اسٹڈیز سنٹر کے ڈائریکٹر گونیلو تول اس بارے میں کہتے ہیں: "امریکہ شام میں باقی رہنے کیلئے کردوں کا محتاج ہے جبکہ دوسری طرف ترکی واشنگٹن کا نیٹو اتحادی ہے۔ لہذا ممکن ہے امریکہ آخرکار کسی ایک کی طرفداری کرنے پر مجبور ہو جائے۔ ایک اعلی سطحی امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اخبار واشنگٹن پوسٹ کو بتایا ہے کہ ترکی نے روس کو اعتماد میں لینے کے بعد عفرین پر حملہ کیا ہے اور روس نے اس فوجی کاروائی کیلئے ترکی کو سبز جھنڈی دکھائی ہے۔"
علاقائی اتحادیوں سے متعلق امریکہ کہ غلط فمہمیاں
عفرین میں ترکی کی فوجی کاروائی کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ امریکہ پر ثابت ہو گیا ہے کہ وہ ان علاقائی اتحادیوں پر اعتماد نہیں کر سکتا جنہیں وہ پہلے قابل اعتماد سمجھتا تھا۔ گونیلو تول اس بارے میں کہتے ہیں کہ عفرین پر ترکی کی فوجی جارحیت نے ظاہر کر دیا کہ خطے میں امریکہ کے بہت کم دوست ہیں۔ امریکہ نے ایسے حالات میں سیرین ڈیموکریٹک فورسز پر اعتماد کیا جب شام میں فوجی صورتحال امریکی توقعات کے بالکل خلاف جا رہی تھی۔ عراق کے زیر انتظام کردستان میں ریفرنڈم کا انعقاد مکمل طور پر ناکامی کا شکار ہوا جس کے نتیجے میں شام اور عراق دونوں ممالک میں کردوں کی سیاسی پوزیشن بہت کمزور ہو گئی۔ دوسری طرف شام حکومت سیاسی لحاظ سے اندرونی اور بین الاقوامی سطح پر پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر سامنے آئی اور ترکی نے امریکی خواہش کے برخلاف اپنی سرحدوں کے قریب سیرین ڈیموکریٹک فورسز کی موجودگی برداشت کرنے سے انکار کر دیا۔
لہذا ایسے وقت جب امریکی حکام شام کی مرکزی حکومت کے خلاف اپنے اتحادی کے طور پر کرد محاذ تشکیل دینے کا سوچ ہی رہے تھے انہوں نے عملی طور پر ترکی سمیت تمام سیاسی کھلاڑیوں کو کردوں کا دشمن بنا ڈالا۔ معروف تجزیہ نگار فیصل ایتانی اس بارے میں لکھتے ہیں کہ امریکہ کے پاس کردوں کے زیر کنٹرول وسیع علاقوں کی سکیورٹی بحال کرنے کیلئے کافی تعداد میں فوج نہیں جبکہ خود امریکی حکام اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ خطے میں سب کردوں کے دشمن ہیں۔ اٹلانٹک کونسل سے وابستہ اس تجزیہ نگار کا مزید کہنا ہے کہ امریکہ نے کرد علاقوں میں صرف ۲ ہزار فوجی بھیجے ہیں جبکہ یہ علاقہ رقبے کے لحاظ سے امریکہ کی ریاست انڈیانا کے برابر ہے۔ یوں امریکہ افغانستان اور عراق کے بعد ایک بار پھر خطے میں شکست کا شکار ہوا ہے۔ امریکہ شام کی سیاسی اور فوجی صورتحال اس طرح تشکیل دینا چاہتا تھا جو خطے سے متعلق اس کے طویل المیعاد منصوبوں سے مطابقت رکھتی ہو لیکن اس کی کوششوں کا الٹا نتیجہ برآمد ہوا اور اب حتی اس کے اپنے اتحادی بھی اس سے ناراض نظر آتے ہیں۔
منبع: اسلام ٹائمز