پہاڑوں کے دامن میں مسکراتی پاکستان کی دلکش جنت نظیر وادی کچورا
کے ٹو کے دامن میں واقع شہر سکردو سے ۳۵ کلو میٹر شمال میں دریائے سندھ کے بائیں کنارے پر۱۵۸۴ مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا وادی کچورا سطح سمندر سے ۸۵۰ سے ۱۱۰۰ فٹ بلندی پر واقع ہے۔کچورا کو یونین ہیڈ کواٹر ہونے کا شرف حاصل ہے۔کچورا جس کی آبادی تقریبا ۸۰۰۰ نفوس ۶۵۰ گھرانے ۵ موضوعات اور ۲۱ محلوں پر مشتمل ہیں۔
پہاڑوں کے دامن میں مسکراتی
پاکستان کی دلکش جنت نظیر وادی کچورا
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
پہاڑی سلسلے چاروں طرف اور بیج میں ہم ہیں
مثال گوہر نایاب ہم پتھر میں رہتے ہیں
کے ٹو کے دامن میں واقع شہر سکردو سے ۳۵ کلو میٹر شمال میں دریائے سندھ کے بائیں کنارے پر۱۵۸۴ مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا وادی کچورا سطح سمندر سے ۸۵۰ سے ۱۱۰۰ فٹ بلندی پر واقع ہے۔کچورا کو یونین ہیڈ کواٹر ہونے کا شرف حاصل ہے۔کچورا جس کی آبادی تقریبا ۸۰۰۰ نفوس ۶۵۰ گھرانے ۵ موضوعات اور ۲۱ محلوں پر مشتمل ہیں ۔اپر کچورا کے محلوں کے نام کچھ اس طرح سے ہیں:۱۔غلچو۲۔حسنین نگر پڑنگ ۳۔پوندس ۴۔شاہین آباد ۵۔علی آباد ۶۔احمد آباد۷۔غازی آباد۸۔ملونگ۹۔ہنگوپیا۱۰۔ژھوق ڈونگبر ۱۱۔ ژھوق فرول۱۲۔ستقچن۱۳۔بلچو۱۴۔گونماشغرتھنگ ۱۵۔گمباشغرتھنگ۔اسی طرح لوئر کچورا کے محلوں کے نام یہ ہیں: ۱۔ مرداچو۲۔ کنڈور۳۔گلشن آباد۴۔قاسم آباد۵۔ژھوکھا ۔۶گربونگ۔
کچورا ویلی کو قدرت نے دودھ کے مانند بہتے ہوئے ندی نالے چشمے دو وسیع قدرتی جھیلیں،آبشاریں، دیو قامت پہاڑیں اور گرمیوں میں لہلاتے ہوئے کھیتیں عطا کی ہوئی ہیں۔یہ سب قدرت کا نہ ختم ہونے والے انمول تحفے ہیں۔کچورا ویلی کو اسی وجہ سے زمین پر جنت سے تشبیہ دی جاتی ہے۔یہ دلفریب وادی کوہ قراقرم اور کوہ ہمالیہ کے بیچوں بیچ آباد ہے اس لحاظ سے اس ویلی کو انگوٹھی میں نگینہ کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں ۔
بلتستان کے مشہورتفریحی مقامات میں سے کچورا ویلی کو خاص مقام حاصل ہے ۔اس علاقے میں دونہایت ہی خوبصورت جھیل ، شنگریلا جھیل اور فروق ژھو جھیل موجود ہے: ۔ علاقے کی خوبصورتی سےمتاثر ہو کر اب تک پاکستان کے کئی وزیر اعظم ،پاک فوج کے اعلی افسران، نیشنل اسمبلی کےممبران اورسنیٹرز اس جنت نظیر وادی کا رخ کر چکے ہیں ۔کچورا ویلی میں درجنوں قسم کے میو ے جیسے انگور،اخروٹ ،شہتوت،خوبانی ،گیلاس،آڑو،سیب ،ناشپاتی اور آلو بخارا وغیرہ پائے جاتے ہیں خاص طور پر یہاں کے سیب مشہور ترین میووں میں شمار ہوتا ہے۔عام طور پر سیاح کچورا ویلی میں ٹروٹ مچھلی کے شکار سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔
یہاں ہر سال کثیر تعداد میں مقامی،ملکی اور غیر ملکی سیاح قدرتی خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لئے آتے ہیں۔پچھلے سال کچورا کی ہوٹلوں میں رہائش کی کمی ہونے کی وجہ سے بہت سارے مہمانوں کو سکردو واپس جانا پڑا تھا اس لیے رواں سال کچورا میں 6 ، 7 نئے ہوٹل اور گیسٹ ہاؤس تیار کئے گئے ہیں ۔ غازی ہوٹل ، لیک ویوہوٹل، نظارہ ہوٹل ، لیک گیسٹ ہوٹل ،ژھوق ویلی ہوٹل ، آبشار ہوٹل ، شالیمار ہوٹل ، ولیج گیسٹ ہاوس ، مندوق گیسٹ ہاوس ، کچورا گیسٹ ہاوس ، گرین گیسٹ ہاوس ، پہلے سے ہی مہمانوں کے لیے خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔
کچورا میں ۶۲ برگیڈ آفیسرز میسFWOآفیسرز میسGBPWDگیسٹ ہاوس،پولیس گیسٹ ہاوس،ناردن سکاوٹس گیسٹ ہاوس،LBRD گیسٹ ہاوس پبلک کال آفس بلڈنگ اور غیر سرکاری عمارتیں مثلا شنگریلا ہوٹل اور تبت موٹل مہمانوں کی میزبانی میں ہمہ وقت سرگرم عمل نظر آتے ہیں ۔کچورا میں GBPWD کا تین ہائیڈل پاور سٹیشن برقی سکردو اور مضافاتی علاقوں کو برقی ضروریات فراہم کرنے میں دن رات مصروف عمل ہیں ۔نالے کی دودھ کے مانند پانی تینوں ہائیڈل پاور سٹیشنوں کو چلا کر دریائے سندھ میں جا گرنا ایک عجیب سی منظر پیش کرتا ہے۔یہاں ایک بوائز ہائی سکول ، ایک گرلزمڈل سکول اور کئی پرائمری سکول موجود ہیں ۔حفظان صحت اور بیمار افراد کی خاطر ایک ڈسپنسری بھی اس علاقہ میں موجود ہے۔کچورا کا سیب بہت مشہور ہے اس لئے سرکاری طور پر یہاں ایک فروٹ نرسری بنا ئی گئی ہے جہاں مختلف قسم کے سیب اور دوسرے میوہ جات دستیاب ہیں۔
کچورا مرکزی بازار اور جامع مسجد کے قریب ہی ایک عظیم عمارت معرفی فاونڈیشن کی تعاون سے دینی تعلیم و تربیت کی غرض سےتعمیر کیا گیا ہےلیکن مالی مشکلات کی وجہ سے یہ درسگاہ ابھی بند پڑا ہوا ہے لیکن مقامی کمیونٹی نے اس عمارت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامیہ نونہال پبلک سکول کی بنیاد رکھی ہے جہاں انگلش میڈیم میں آٹھویں کلاس تک مروجہ تعلیم دی جاتی ہے۔کچورا مرکزی بازار کے قریب ایک چھوٹی سی عمارت میں ایک لائبریری مکتبہ امام باقر علیہ السلام کے نام سے موجود ہے جس میں اہل مطالعہ کے لئے سینکڑوں کی تعداد میں کتابیں موجود ہے۔
عام طور پر یہاں کے لوگوں کا بنیادی پیشہ کھیتی باڑی اور مال مویشی پالنا ہے۔اس علاقہ کے جوان اور نوجوان بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سکردوجاتےہیں اور پھر وہاں سے اعلی تعلیم کی خاطر پاکستان کے مختلف صوبوں کا رخ کرتے ہیں ۔ اس وقت اس علاقہ کے بہت سارے جوان ملک کے مختلف یونیوسٹیوں میں اعلی تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہیں ۔ اس علاقے کے بیشتر جوان وطن عزیز کی سرحدوں کی پاسبان بن کر پاک فوج میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ اب تک اس علاقے سے کئی جوان کمیشن پاس کر کے پاک آرمی جوائن کر چکے ہیں۔پاک فوج کے اعلی عہدوں میں اب تک اس علاقہ سے ایک برگیڈیر ،ایک میجر ، ایک لیفٹینٹ ،ایک آنریری لیفٹینٹ ،دو صوبیدا میجراور ۲۰سے ۳۰ افراد تک صوبیدار کے عہدوں پر فائز ہوچکے ہیں ۔اسی طرح بعض جوان پولیس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ اس علاقے کے بزرگ و کوچک سبھی مذہبی ہیں اسی لئے جمعہ و جماعات ،محافل و مجالس میں بڑے ذوق و شوق کے ساتھ شرکت کرتے ہیں۔اس علاقے میں تقریبا ۳۰ مساجد اور ۲۲ امام بارگاہ موجود ہیں جہاں نماز ، محافل و مجالس بڑے احترام و عقیدت کے ساتھ انجام پاتے ہیں۔کچورا میں ایک مرکزی جامع مسجد موجود ہے جہاں نماز جمعہ وجماعت برپا ہوتی ہے ۔ اس وقت علامہ شیخ صادق نجفی بعنوان امام جمعہ و جماعت خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ اس علاقہ کے مرکزی امام بارگاہ کا نام امام بارگاہ بوری ٹوق ہے جہاں سالانہ تین سے چار مرتبہ مجالس و محافل منعقد ہوتےہیں ۔ ماہ محرم الحرام اور اسد کے مہینے میں عزاردی امام حسین علیہ السلام اور مرکزی جلوس میں شرکت کی خاطر دور دارز سے بھی بہت سارے افراد اس علاقہ کا رخ کرتے ہیں ۔
مروجہ تعلیم سے ہٹ کر دینی تعلیم میں بھی اس علاقہ کے جوان و بزرگ کسی سے کم نہیں ہے۔ اس علاقہ کے بہت سارے جوان اسلام ناب اور تعلیمات محمد و آل محمد{ع} کے حصول کی خاطر پاکستان میں موجود دینی درسگاہوں میں زیور تعلیم سے آراستہ ہورہے ہیں ۔ اس علاقہ کے بہت سارے علماء حوزہ علمیہ نجف اشرف،قم المقدسہ ،اصفہان اور مشہد مقدس میں اعلی دینی تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہیں ۔اس علاقہ کے بعض بزرگ علماء اعلی تعلیم سے فارغ ہو کر علاقائی اور ملکی سطح پر دینی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ حجج اسلام شیخ صادق نجفی{کچورا وسکردو }شیخ عیسی نجفی{سکردو}،شیخ حسین اعجاز{کچورا} شیخ اعجاز حسین بہشتی،{اسلام آباد} شیخ احمد حسن سروری {لاہور}سید مہدی موسوی{فیصل آبا د }سید احمد موسوی{کوئٹہ} شیخ علی شیر انصاری {اسلام آباد}شیخ رستم علی صابری{جھنگ}اور دیگر علماءمختلف مقامات پر دینی فرائض انجام دے رہے ہیں ۔
اس علاقہ میں مقامی سطح پر جوانوں کی تنظیم K .Y.Oاور دیگرتنظیمیں موجود ہیں جو مختلف اہداف کی حصول کی خاطر علاقے میں قابل قدر خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔اسی علاقہ سے علماء کرام کا بھی ایک پلیٹ فارم علماء کونسل کچورا اور مجمع علمی فرہنگی کچورا کے نام سے موجود ہیں جو علاقہ میں دینی خدمات کی خاطر سرگرم عمل ہیں ۔اسی پلیٹ فارم کی طرف سے علاقہ کے نوجوانوں اور جوانوں کی تربیت کی خاطر ماہ مبارک رمضان میں اب تک پانچ مرتبہ مراسم اعتکاف،پاک فوج اور دوسرے بے گناہ شہداء کی ایصال ثواب اور ان کی تجلیل کی خاطر کئی سیمنارمنعقد ہو چکے ہیں ۔اب تک اسی پلیٹ فارم کی طرف سے مجلہ صراط کی چوتھی ایڈیشن اور دس سے زیادہ کتابچے منظر عام پر آگئے ہیں ۔
علماء دوستی اور احترام علماء میں یہ علاقہ بے نظیر ہے۔ اسی بنا پر علماء کرام اس علاقہ کے لوگوں سے ملنے کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں۔ اس علاقہ کے عوام کو اب تک بہت سارےنامور علماء کرام کی میزبانی کا شرف حاصل ہو چکا ہے۔ اس علاقہ میں تشریف لانے والے علمائے کرام میں آیت اللہ آصف محسنی ، شہیدعلامہ عارف حسین الحسینی،شہید سیدضیاء الدین رضوی،علامہ سید ساجد علی نقوی،علامہ راجہ ناصر عباس جعفری ، علامہ شیخ محسن علی نجفی اور علامہ امین شہیدی قابل ذکر ہیں۔
یہ علاقہ ملکی اورغیر ملکی سطح پر پہلے سے ہی ایک خوبصورت تفریح گاہ کےحوالے سے مشہور ہے لیکن مذہبی اور علماء دوستی کے لحاظ سے اس وقت زبان زد عام ہوئےجب اس علاقہ کے نوجوانون ،جوانوں ، سرکردگان ،بزرگ،اور علماء نے اپنے میزبان عالم کو گرفتار ہونے سے بچالئے۔جب گلگت بلتستان کے سابق وزیر اعلی کے حکم پر وحدت مسلمین کے جنرل سکریڑی علامہ راجہ ناصر عباس جعفری {جو اس وقت علاقہ کے علماء کی دعوت پر کچورا میں عزاداری امام حسین علیہ السلام میں خطاب کرنے کے لئے آئے ہوئے تھے } کو پابند سلاسل یا علاقہ بدر کرنے کے لئے جب پولیس کی بڑی تعداد نے علاقہ کا رخ کیا اور طاقت کے زور پر انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی تو اس وقت علاقہ کے نوجوانوں،جوانوں ،بزرگ،بوڑھے اور علماء کرام نے قیام کر کے اور بر وقت مومنین کو اطلاع دے کر کے اپنے مہمان کی خوب حفاظت کی اور حکومتی مشینری کو شکست دے کر علاقہ کا نام روشن کر دیا۔اس علاقہ کے عوام نے ظالم حکومت کو یہ پیغام دیا کہ ہم کوفہ والوں کی طرح نہیں کہ اپنے مہمان مسلم ابن عقیل کو تنہا چھوڑ دے۔
کچورا ویلی میں سردیوں میں منفی ۱۰ سے ۲۵ تک سینٹی گریڈ گر جاتی ہے اورگرمیوں میں گرمی ۲۰ سے ۴۰ سینٹی گریڈ گرمی پڑتی ہے۔کچورا ویلی گرمیو ںمیں جگہ جگہ سیاء{جنگلی گلاب} کھلنے کا ایک دلفریب منظر پیش کرتا ہے۔
فروق ژھو جھیل
اپر کچورا جھیل صاف پانی کی جھیل ہے جس کی گہرائی تقریباً 70 میٹر ہے، دریائے سندھ اس کے قریب ہی قدرے گہرائی میں بہتا ہے، گرمیوں میں دن کے وقت یہاں کا درجہ حرارت 10 سے 15 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے جبکہ سردیوں میں درجہ حرارت نقطۂ انجماد سے بہت نیچے گر جاتا ہے جس کی وجہ سے جھیل کا پانی مکمل طور پر جم جاتا ہے۔ اپر کچورا جھیل درختوں میں گھری ایک انتہائی خوبصورت جگہ ہے۔ یہاں ہائکنگ، کوہ پیمائی، مچھلی کے شکار وغیرہ کے مواقع میسر ہیں ۔
سیاح سید مہدی بخاری اس جھیل کی خوبصورتی کو اپنےالفاظ میں یوں بیان کرتا ہے :درختوں کے بیچ گھِری اپر کچورا جھیل کے نیلگوں پانی میں پہاڑوں کے پیچھے دیر سے ابھرنے والے سورج کی پہلی پہلی کرنیں یوں آہستہ آہستہ جھیل میں اُترتی ہیں جیسے کوئی بہت مقدس پانی میں پہلے آہستہ سے اپنے پیر کی انگلیاں ڈبوئے، پھر تلوے، اور آخر میں ایڑھیاں۔ زندگی میں پہلی بار کرنوں کو پانی میں اترتا وہیں دیکھا تھا۔
ایک اور سیاح اس جھیل کی خوبصورتی کو اپنے الفاظ میں کچھ اس طرح سے قید کرتا ہے : کچورا کی جھیل کے اردگرد پھیلے جنگل میں رات اُتر چکی تھی۔ یہ نومبر کا آغاز تھا۔ ہوا میں سردی بھری ہوئی تھی جو جسم کو چیرتی ہوئی گزر جاتی تھی۔ زمین پاپولر کے خزاں رسیدہ پتوں سے ایسے سجی ہوئی تھی کہ نارنجی قالین کا گمان ہوتا تھا۔ پورے چاند کی رات تھی ۔چاندنی درختوں کے لمبے سائے بناتی پتوں سے چھَن چھَن کے اُتر رہی تھی۔ ہر قدم پر فضا میں چڑ چڑ کی آواز آتی جو پاؤں کے نیچے آنے والے خشک پتوں کی آخری ہچکی ہوتی۔ تیز ہوائیں اب آہستہ ہو چکی تھیں اور نیچے کچورا جھیل کا پانی کناروں سے ٹھہرا ھوا سا لگتا تھا جس میں چاند اور برف پوش چوٹیوں کا عکس گھُلتا جاتا تھا۔
شنگریلا جھیل
لوئر کچورا جھیل یا شنگریلا جھیل اصل میں شنگریلا ریسٹ ہاؤس کا حصّہ ہے، یہ سیاحوں کے لیے ایک مشہور تفریح گاہ ہے جو کہ اسکردو شہر سے بذریعہ گاڑی تقریباً 25 منٹ کی دوری پر ہے- شنگریلا ریسٹ ہاؤس کی خاص بات اس میں موجود ریسٹورنٹ ہے جو کہ ایک ایئر کرافٹ کے ڈھانچے میں بنایا گیا ہے، شنگریلا ریسٹ ہاؤس چینی طرز تعمیر کا نمونہ ہے، سیاحوں کی بڑی تعداد اس کو دیکھنے کے لیے آتی ہے۔شنگریلا جھیل کو پاکستان کی دوسری خوبصورت ترین جھیل بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا نظارہ کسی پر بھی سحر طاری کرسکتا ہے۔
ایک سیاح اپنے سفرنامہ میں رقمطرازہے : کچورا کے مقام پر شنگریلا کے نام سے ایک چھوٹی سی جنت آباد ہے۔ یہ حقیقتاً دنیا کی خوبصورت ترین جگہوں میں شمار ہوتی ہے ۔مجھے 2005ء میں اس جنت میں دو دن گزارنے کا موقع ملا۔ میں آج تک اس جنت کے سحر سے آزاد نہیں ہو سکا ۔ہمارے علاقے یورپ سے زیادہ خوبصورت ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے شمالی پاکستان کی صورت میں زمین پر جنت کا عکس اتارا ہے اور ہم میں سے جس شخص نے جاگتی آنکھوں سے یہ جنت نہیں دیکھی وہ بدنصیب انسان ہے۔
ایک اور خوش قسمت سیاح عبد الوحید طارق لکھتا ہے : شنگریلا کا اصل حسن تو قدرت کا عطا کردہ ہے لیکن اس کی اضافی تزئین و آرائش شنگریلا کی انتظامیہ نے بھی کی ہے، زیریں کچورا میں بسنے والی اس حسینہ کے لب و رخسار کو سرخی لگا کر مزید نکھار دیا گیا ہے۔ خوبصورتی اورحسن اس چھوٹی سی جنت میں چاروں طرف بکھرا ہوا تھا۔ دبیز قالینوں جیسے سبزہ زار، جن میں جا بجا سجی ہوئی قطار در قطار خوش رنگ پھولوں کی کیاریاں اور خوبصورت وضع قطع کے حامل درخت۔سونے پر سہاگہ کہ چاروں طرف پھیلے سبزہ زاروں کے بیچوں بیچ شفاف آئینے کی مانندپھیلی ہوئی طلسماتی جھیل۔جس کے تین اطراف سیاحوں کے قیام کے لئے بنائے گئے آرام دہ اور حسین کاٹیجز اور ان کے عقب میں نظر آتےبرف پوش پہاڑوں کا عکس جھیل کے آئینے میں اتر کر ٹھہرتا نہ تھا ،ہماری نظروں سے ہوتا ہوا سیدھا دل میں گھستا اور روح میں بستا تھا۔ در حقیقت شنگریلا کی یہ جنت قدرت کے تخلیق کردہ ایسے انمول ہیرے کی مانند ہےجس کو اس خوبصورتی اور مہارت سے تراشا گیا ہے کہ اس کی خوبصورتی اور حسن کی چمک دمک سیاح کی آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہے اور وہ یہاں کی سیر کے دوران مناظر کی حسن میں ایسا کھو جاتا ہے کہ وقت کے گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ یہی ہمارے ساتھ بھی ہوا ، دو گھنٹے کس طرح پر لگا کر اڑ گئے ، کچھ پتہ ہی نہ چلا۔
جاوید چوہدری مشہور کالم نگار کچورا خاص طور پر زمین پر جنت یعنی شنگریلا سے متاثر ہو کر بے اختیار لکھتا ہے ۔میری خواہش ہے میں زندگی کے آخری دن شنگریلا میں کچورا لیک کے سامنے کرسی پر بیٹھ کر گزار دوں اور میں اس عالم میں فوت ہو جاوں تو مجھے شنگریلا کے کسی گم نام قبرستان میں دفن کر دیا جائے تاکہ میری قبر سردیوں میں برف میں گم ہو جائےبہار آئے تو بادام کے نیم سفید پتے قبر کو ڈھانپ لیں گرمیوں میں انگور کی بیلیں اس پر سایہ کر دیں اور خزاں کے موسموں میں چنار کے سرخ پتے قبر کے دائیں بائیں دوڑتے رہیں چاند کی لمبی راتوں میں جب چاند کچورا لیک میں غسل کے لیے آئے تو وہ ایک لمحے کے لیے‘ ہاں صرف ایک لمحے کے لیے میری قبر پر رک جائے اور اس کے بعد جو بھی عذاب آئے آئے اور ہوائیں جب دنیا کے بلند ترین صحرا کی ریت ساتھ لے کراڑیں تو یہ بھی چند سکینڈ کے لیے وہاں رک جائیں اور میں چند لمحوں کے لیے ہی سہی اڑتے ہوئے تیز ذروں کی سائیں سائیں محسوس کروں اور جب سردیوں کی ٹھنڈی بدمست ہوائیں آنے والے دنوں کی نمی لے کر دوڑیں یہ نمی بھی ایک پہر کے لیے قبر کی سل پر ٹھہر جائے اور میرا متروک بے جان اور بے رنگ بدن اس نمی کو محسوس کرے اور اس کے ساتھ ہی گئے زمانوں کے سارے ذائقے اپنی خوشبو کے ساتھ قبر میں زندہ ہو جائیں اور کوئی شخص، گزرتا ہوا کوئی سیاح قبر کے ساتھ بیٹھ کر کافی پیئے اور جاتے ہوئے کافی کا خالی مگ وہاں بھول جائے جس طرح میں 2006ء میں اپنا مگ ایک بے نام قبر کے سرہانے بھول آیا تھا اور یہ مگ مجھے آج بھی سات سال پیچھے لے جاتا ہے‘ ان سات سالوں میں جب میں نے زندگی میں پہلی بار کچے بادام کا ذائقہ چکھا تھا۔ کھٹے انگور کھائے تھے اور جب میں نے اپنی سرخ شرٹ کا جھنڈا بنا کر قبر کے پائوں میں گاڑھ دیا تھا۔ سیاحت،حسن اور یاد شنگریلا کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔شنگریلا میں گزرا ہوا وقت میری زندگی کے خوبصورت ترین دن تھے۔شنگریلا ائیر مارشل اصغر خان کے بھائی بریگیڈیئر اسلم نے آباد کیا تھا۔ بریگیڈیئر اسلم جمالیات حس سے مالا مال انسان تھے۔انھوں نے سکردو کے مضافات میں کچورا کے مقام پر شنگریلا کے نام سے ایک چھوٹی سی جنت آباد کی۔ یہ حقیقتاً دنیا کی خوبصورت ترین جگہوں میں شمار ہوتی ہے۔
آخر میں تمام قارئین کی خدمت میں یہی کہوں گا کہ وہ اس خوبصورت اورجنت نظیر علاقے کی سیر و تفریح کے لئے حتما تشریف لائیں کیونکہ جس شخص نے جاگتی آنکھوں سے یہ جنت نہیں دیکھی توگویا اس نے کچھ بھی نہیں دیکھا ہے۔