• صارفین کی تعداد :
  • 196
  • 1/3/2018 3:37:00 PM
  • تاريخ :

ایران کے حالات۔۔۔۔۔۔اصل حقیقت کیا ہے؟

ان واقعات کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ کسی بھی واقعہ میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے طاقت کا بالکل بھی استعمال نہیں کیا۔ اور شاید اس بات نے بھی اس اچھل کود کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کیا

 
ایران کے حالات۔۔۔۔۔۔اصل حقیقت کیا ہے؟


تحریر: یوشع ظفر حیاتی

اسلامی جمہوریہ ایران میں گذشتہ چند دنوں سے گہماگہمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ ایک طرف جہاں معاشی مشکلات کا شکار افراد مظاہرے کر رہے ہیں تو دوسری طرف بعض انویسٹمنٹ بینکوں کے ہاتھوں نقصان اٹھانے والے متوسط اور امیر طبقے کے افراد سڑکوں اور حکومتی اداروں کے آس پاس شکوہ کرتے نظر آرہے ہیں۔

معاشی مشکلات کے شکار افراد کا شکوہ بھی بجا ہے اور انوسٹمنٹ بینکوں کے ہاتھوں لٹنے والوں کا بھی۔ کیونکہ بے روزگار افراد کو تو برسراقتدار آنے والی اصلاح پسند حکومت نے انتخابات کے وقت اتنی امیدیں اور دلاسے دیئے تھے کہ بس بر سر اقتدار آنے دو یہ تمام مشکلات آن واحد میں حل ہوجائیں گی۔ اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے انکے ہاتھوں میں کوئی سونے کی چڑیا یا جادو کی چھڑی ہے جس کے استعمال سے ملک کے تمام مسائل پلک جھپکتے حل ہوجائیں گے۔ اچھا دوسری طرف وہ متوسط اور امیر طبقہ بھی حق بجانب ہے کہ جس اپنا اپنا سرمایہ بینکوں کے حوالے کردیا کہ اب چند دنوں میں جب مشترکہ جامع ایکشن پلان جسے اسلامی جمہوریہ ایران میں برجام کے نام سے پکارا جاتا ہے کا جام چھلکنا شروع ہوگا تو نصیب پھر جائیں گے اور ملک میں دولت کی ریل پیل کے نتیجے میں ہمارے گھروں میں بھی بہار آجائے گی لیکن اب جب انکی اصل رقم بھی لٹ گئی تو وہ بین کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔

کہتے ہیں انڈے میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا اور انڈے کے مسئلے نے ان مظاہروں کا مزید سہارا دے دیا۔ کم و بیش دو ہفتوں سے یہ مظاہرے جاری تھے لیکن ان میں تشدد اور جلاو گھیراو کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا۔ ایسی تصویریں آج بھی مختلف اخباروں اور ویب سائٹس کی زینت بنی ہوئی ہیں جن میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ عوام نے اپنے ہر دل عزیز رہبر و رہنما آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی تصویریں اٹھا رکھی ہیں جن پر یہ جملہ نمایاں ہے کہ " مردم گلہ مندند" یعنی عوام گلہ کررہی ہے، شکایت کر رہی ہے۔ اور اسی طرح کے بے شمار دیگر فرمودات پلے کارڈز پر درج ہیں جن کا سہارا لے کر عوام حکومت کو یہ باور کروانا چاہ رہی ہے کہ اعلیٰ حکام دیکھ لیں یہ صرف ہماری شکایت نہیں بلکہ معیشت کے بارے میں تو رہبر انقلاب اسلامی بھی کافی عرصے سے تاکید کرتے چلے آرہے ہیں کہ جن لوگوں کے ہاتھوں میں ملک کی باگ دوڑ ہے انہیں چاہئے کہ عوام کی معیشت کا مسئلہ حل کریں۔

اس تمام تر صورتحال کو سامنے رکھ کر اب بات کرتے ہیں ان خبروں کی جنہوں نے پوری دنیا میں اسلامی جمہوریہ ایران کے چاہنے والوں کو بے چین کر کے رکھ دیا۔ یہ مظاہرے تو چند دنوں سے جاری ہی تھے لیکن اچانک ان میں تشدد اور توڑ پھوڑ کا عنصر داخل ہوگیا کہ جو نہایت منظم انداز میں اور وقت اور موقع مناسبت کو سامنے رکھ کر کیا گیا تھا۔

آپ کو یاد ہو گا ۳۰ نومبر ۲۰۰۹ کو اسلامی جمہوریہ ایران کے عوام نے پورے ملک میں جاری فتنے و فساد کے سدباب کے لئے بہت بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر اسلامی جمہوری نظام اور رہبر انقلاب اسلامی سے اپنی وفاداری کا بھرپور اعلان کیا تھا اور شہر شہر قریہ قریہ ہونے والے میلین مارچ نے ملک سے بغیر کسی تشدد اور قتل و غارت گری کے نہایت پرامن انداز سے اس وقت کے جاری فتنے کا ایسے خاتمہ کردیاتھا کہ جیسے وہ کبھی تھا ہی نہیں۔ عوام کی اس شاندار کامیابی کو ہر سال روز بصیرت کے عنوان سے منایا جاتا ہے۔

اس دفعہ بھی روز بصیرت پر اتنے ہی عظیم الشان اجتماعات منعقد ہوئے، ہر شہر ہر گاوں ہر دیہات میں ریلیاں نکالی گئیں اور عوام نے اپنے رہبر و رہنما اور اپنے اسلامی نظام سے عقیدت اور محبت کا اظہار کیا۔ لیکن اس موقع پر دشمن بھی چین سے نہیں بیٹھا تھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کو خطے کے مظلوم اور مستضعف عوام کی مسلسل حمایت، یمن اور بحرین کے عوام پر سعودی جارحیت اور فلسطین کی سرزمین پر صیہونیوں کے ناجائز قبضے کی مسلسل مخالفت کہ وجہ سے مسلسل عالمی استکبار، غاصب صیہونی حکومت، اور شیطان اکبر امریکہ کی دھونس اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور سونے پر سہاگہ شام اور عراق میں تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کی استقامتی گروہوں کے ہاتھوں بری طرح شکست کے نتیجے میں انہیں جو ہزیمت اٹھانا پڑی تھی اب وہ کسی نہ کسی بہانے اسلامی جمہوریہ ایران سے اپنی شکست فاش کا بدلہ لینے کے درپے ہیں۔

دشمن نے موقع کی نزاکت سے فائدہ اٹھایا، چند ضمیر اور وطن فروش عناصر کو لاکھوں ڈالرز دیئے گئے )جس کے شواہد اس وقت ایرانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر موجود ہیں( تاکہ وہ عوام کے جذبات بھڑکا کر ایسے نادان جوانوں سے سوء استفادہ کریں کہ جنہیں نہ اپنے بارے میں کچھ معلوم ہے نہ داخلی اور خارجی سیاست سے ان کی کچھ آشنائی ہے۔ اوپر سے سوشل میڈیا نے ہمیشہ کی طرح اپنا شیطانی کردار ادا کیا اور برطانوی، امریکی، صیہونی اور سعودی نوٹوں کی طاقت سے چلنے والے ان سوشل میڈیا چینلز نے بھی اپنی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے بعض شہروں میں جاری پر امن مظاہروں میں تشدد کا عنصر داخل ہو گیا اور بات صرف یہیں نہیں رکی بلکہ دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں بھی عجیب و غریب مظاہرے شروع ہوگئے جن کا نہ کوئی سر تھا نہ پیر۔ نہ مظاہرہ کرنے والے معاشی بدحال نظر آرہے تھے نہ ہی ان کے نعرے موجودہ مسائل سے میل کھا رہے تھے۔ مظاہروں کی کیفیت ہی بدل گئی اور وہ بے چارے مظلوم افراد کہ جو اپنی دکھ بھری آپ بیتیاں لے کر سڑکوں پر نکلے تھے اب انکا دور دور تک کہیں بھی کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ مختلف شہروں کا آنکھوں دیکھا حال دوستوں نے جو بیان کیا وہ اپنی جگہ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ان بیانات پر کسی خاص گروہ کی طرفداری کا الزام لگ جائے، لیکن تصویریں اور ویڈیو کلپس گلے پھاڑ پھاڑ کر اس بات کی شہادت دے رہی تھیں کہ اب سڑکوں پر کوئی بھی عزت دار اور با وقار شخصیت نہیں تھی بلکہ معدودے چند لوفر اور لچے لفنگے اچھل کود کرتے نظر آرہے تھے جن کا نہ تو کوئی مطالبہ تھا نہ ہی انکو کوئی مسئلہ درپیش تھا۔ کیونکہ انہوں نے سڑکوں پر آتے ساتھ ہی جلاو گھیراو، فائرنگ، توڑ پھوڑ اور مار پیٹ شروع کردی تھی جسے ایران اور انقلاب مخالف میڈیا بڑھا چڑھا کر دکھا رہا تھا اور بعض تو انکی اچھل کود دیکھ کر اتنے خوش ہورہے تھے کہ انہوں نے ان اوباش جوانوں کی ٹولیوں کی اچھل کود کو ایران میں نئے انقلاب سے تعبیر کردیا اور شاید وہ اس بات کا بھی انتظار کر رہے تھے اب اسلامی نظام کا دو چار گھنٹوں میں ہی خاتمہ ہوجائے گا۔

بعض شہروں میں ناجائز اسلحے سے فائرنگ کے نتیجے میں اکا دکا عام شہریوں کی جانیں چلی گئیں۔ ایک شہر میں جس کا نام "دورود" ہے فائر بریگیڈ کی گاڑی جو قومی سرمایہ ہوتی ہے اور عوام کے پیسے سے ہی خریدی جاتی ہے اسے اسٹارٹ کر کے عام عوام کی گاڑیوں کی جانب روانہ کر دیا گیا جس کے نتیجے میں اس نے متعدد گاڑیوں کو روند ڈالا اور دو عام شہری جو رشتے میں باپ بیٹے تھے اس حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔ اسی طرح بعض مقامات پر عام افراد اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر تشدد کیا گیا جس کے نتیجے میں بعض افراد کی جانیں چلی گئیں۔

لیکن ان تمام واقعات میں بہت زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا لیکن ان واقعات کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ کسی بھی واقعہ میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے طاقت کا بالکل بھی استعمال نہیں کیا۔ اور شاید اس بات نے بھی اس اچھل کود کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ کیونکہ دو دنوں میں ہی عوام پوری طرح متوجہ ہوچکی تھی کیونکہ اگر انقلاب کے حامی افراد ہوتے تو وہ اپنے مسائل بیان کرتے اور ہوسکتا ہے کہ چند مقامات پر حکومت مخالف نعرے سننے کو ملتے اسی طرح اگر وہ افراد ہوتے کہ جنہوں نے حالیہ انتخابات میں اصلاح پسندوں کو ووٹ دیئے ہیں تو وہ قدامت پسندوں کے خلاف نعرے لگاتے لیکن حکومت کی حمایت کرتے نظر آتے لیکن یہاں معاملہ ہی دوسرا تھا یہ ٹولیاں ایسے نعرے لگا رہی تھیں کہ جن سے واضح طور پر نشاندہی ہورہی تھی کہ کہ اب سڑکوں پر اپنا دکھ درد بیان کرنے والے موجود ہی نہیں ہیں بلکہ یہ کچھ دیگر افراد ہیں جو اپنے مسائل لے کر نہیں آئے بلکہ یہ کسی اور کے اشارے پر ناچ رہے ہیں اس لئے بہتر ہے کہ ان کٹھ پتلیوں کا ساتھ دینے کے بجائے اپنا راستہ الگ کیا جائے۔

جو کچھ ہوا وہ اپنی جگہ لیکن اسلامی جمہوریہ ایران اور اسکے ہم پلہ استقامتی گروہوں کے ہاتھوں تاریخ کی بدترین شکست کھانے والی عالمی اسکتباری طاقتوں نے اور انہوں نے کہ جنکا اپنا دامن، جارحیت، ظلم، جبر، استحصال، اور جور و جفا کی انگنت داستانوں سے بھرا ہوا ہے ان چھوٹی چھوٹی خبروں کو جمع کر کے رائی کا پہاڑ بنالیا اور انتہائی عجلت میں ایران اور اسلامی انقلاب کی مخالفت میں بڑے بڑے بیانات داغنا شروع کردیئے، ان اوباش جوانوں کی بڑھ بڑھ کر حمایت کرنے لگے اور پوری دنیا میں اپنے جیرہ خوار میڈیا اور میدان صحافت میں موجود لالچی لومڑی صفت تجزئی کاروں اور صحافیوں کو بھرپور انداز سے ایران کے موجودہ حالات پر لفاظی کا حکم دیا گیا جس نے انکے مکار چہروں پر پڑے پردے ہٹا دیئے اور عالمی سطح پر انکی یہ سازش شروع ہونے سے پہلے ہی بے نقاب ہوگئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ جب آپ استکباری میڈیا پر نگاہ دوڑائیں تو ایسا لگتا ہے کہ بس اب ایران کا دھڑن تختہ ہونے والا ہے۔

حقیقت کچھ اور ہے ۔۔۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں اس وقت ہر جگہ امن و امان ہے۔ اس وقت ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کا کنٹرول مکمل طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں میں ہے۔ فتنے اور فساد کی جڑ اور ام شیطان سوشل میڈیا کہ جس نے نادان افراد کو مسلسل منحرف کرنے کی کوشش کی اس پر عارضی اور جزوی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ فتنہ گر عناصر کی گرفتاری کا سلسہ جاری ہے جن میں سے اکثر کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ وہ عادی مجرم اور بیرون ملک سے فنڈ کے وعدے پر سڑکوں پر جمع ہوئے تھے، جنہیں بھاری رقوم دینے کا وعدہ کیا تھا جس کا انکشاف ود گرفتار شدہ افراد نے کیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ان ٹولیوں کے بعض سرغنہ اسلحے کے ساتھ ساتھ سائنائیٹ کی گولیاں بھی لائے تھے تاکہ دو چار بے وقوفوں کو قربانی کا بکرا بنائین اور پھر انکی لاشوں پر سیاست کریں لیکن انکا یہ منصوبہ بھی نقش بر آب ہوا اور ساتھ ہی ساتھ عوام نے بھی موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے بڑے پیمانے پر اسلامی جمہوریہ ایران، انقلاب اور ولایت فقیہہ کے حق میں عظیم الشان ریلیاں نکالنا شروع کردی ہیں جس نے اس فتنے کو رہا سہا دم بھی نکال دیا ہے۔

عوام کا کہنا ہے کہ ٹھیک ہے کہ ہم اس وقت معاشی مشکلات کا شکار ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے ملک کو اپنے وطن کے باسیوں کو اور قومی سرمائے کا نقصان پہنچائیں۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ جو اسلام، قرآن، دین، وطن اور اپنے ہم وطن بھائی کا نہیں ہے ہم اس سے برائت کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ وہ ایرانی نہیں ہے بلکہ دشمن کا آلہ کار ہے۔

یہاں قارئین کے لئے ایک سوال چھوڑے جارہا ہوں۔ کبھی ہم نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ رواں سال مغربی ممالک میں کتنے احتجاج ہوئے، کتنے لوگ دہشتگردی کا نشانہ بنے، کتنے حادثات ہوئے۔۔۔ نہیں کبھی نہیں کیونکہ ہم نے سنی سنائی کو ہی ہمیشہ مدنظر رکھا اور کبھی بھی حقیقت کے پیچھے جانے کی کوشش نہیں کی۔

منبع: تقریب نیوز