’مشرق وسطیٰ کا گُلو بٹ‘
شہزادے کئی قسم کے ہوتے ہیں، جیسے خوابوں کا شہزادہ، کہانیوں کا شہزادہ، تاریخ کا شہزادہ، روڈ کا شہزادہ، قطری شہزادہ اور سعودی شہزادہ۔
شہزادے کئی قسم کے ہوتے ہیں، جیسے خوابوں کا شہزادہ، کہانیوں کا شہزادہ، تاریخ کا شہزادہ، روڈ کا شہزادہ، قطری شہزادہ اور سعودی شہزادہ۔
خوابوں کا شہزادہ گاوں کی گوری سے شہر کی چھوری تک ہر لڑکی کے سپنوں میں بسا ہوتا ہے۔ خوب صورتی، وجاہت، بانکا سجیلا اور چھیل چھبیلا ہونا تو اس کی ثانوی خصوصیات ہیں، اس کی اصل خاصیت تو شہزادگی ہے، جس کے ساتھ محل، خُدام اور کنیزیں خود ہی خواب میں چلی آتی ہیں۔ جب ہی تو اس کے سپنے دیکھے جاتے ہیں، ورنہ آپ نے کبھی خوابوں کا شاعر، خوابوں کا ادیب، خوابوں کا کلرک، خوابوں کا مکینک سُنا؟
ان ساروں کا کام خواب میں آنا نہیں، مستعار لی ہوئی سجی سجائی کار پر آکر خواب دیکھنے والی کو خواب سے نکال کر ساس نندوں بھری حقیقت میں لے جانا ہوتا ہے۔ شہزادے کا خواب دیکھتے دیکھتے بے چاری لڑکیاں پھوپھی کے بیٹے، خالہ کے نورِ نظر یا محلے کے کسی انور، اکبر، ظفر سے بیاہ دی جاتی ہیں۔
کہانیوں کا شہزادہ صرف اپنی جان جوکھم میں ڈال لیا کرتا تھا کہ بچوں کے لکھاری کو لکھنے کے لیے کوئی کہانی مل جائے۔ جب سے بچوں نے کہانیاں پڑھنی چھوڑی ہیں اس کی جان بھی چھوٹ گئی ہے۔
تاریخ کے شہزادوں کے دو ہی کام تھے، سلطنت کے کیش پر عیش اور باپ کی موت کا انتظار کرنا۔ ان میں بھائی چارہ ذرا بھی نہیں ہوتا تھا، کمزور شہزادہ طاقتور بھائی کا چارہ بن جایا کرتا تھا۔ ان کی آدھی زندگی کنیزوں کے پیچھے دوڑتے اور باقی کی زندگی بھائیوں کے آگے بھاگتے گزر جاتی تھی۔
’روڈ کا شہزادہ‘ آپ نے عموماً رکشوں کے پیچھے لکھا دیکھا ہوگا۔ یہ شہزادے سڑک کو اپنی سلطنت سمجھتے ہوئے جس شان سے چلتے ہیں اور ان کے رکشوں کی گرج دار بھراہٹ جس طرح للکارتی ہے، اس سے لگتا ہے کہ یہ شہزادے پھٹا ہوا طبلِ جنگ بجاتے کوئی ملک فتح کرنے یا بغاوت فرو کرنے جا رہے ہیں۔
قطری شہزادے کو تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔ خطوط غالب کے بعد مشہور ترین خط ان ہی کا ہے۔
اور اب بات ہوجائے سعودی شہزادے کی۔ یوں تو سعودی عرب
ہر شاخ پہ ہے اک شہزادہ انجامِ گلستاں کیا ہوگا
کی عملی تفسیر ہے، لیکن شجرِ حکومت کی سب سے اونچی ٹہنی پر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان براجمان ہیں۔ ان کے اوپر بس بادشاہ سلامت کی ڈالی جھول رہی ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان کو پاکستانی تناظر میں سمجھنے کے لیے آسان ترین تعریف یہ ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے گُلو بٹ ہیں۔ اپنی مملکت میں سرکار سے سماج تک اور ارضِ سعودیہ سے یمن تک انہوں نے ہمارے گُلوبٹ ہی کی طرح بڑی تیزی سے توڑ پھوڑ کی ہے۔
اِس معاملے میں ان کا جوش و جذبہ مجاز کی نظم آوارہ کا عکاس ہے۔ لگتا ہے وہ
اے غم دل کیا کروں،
اے وحشت دل کیا کروں
کہتے ہوئے عالمِ وحشت میں یا کسی دہشت میں کچھ سوچے سمجھے بغیر جو کرنا ہو کیے جارہے ہیں۔ ’جی میں آتا ہے یہ مُردہ چاند تارے نوچ لوں‘ کی پیروی کرتے ہوئے شہزادہ ولید بن طلال سمیت سعودی افق پر دمکتے بہت سے تارے نوچ کر سعودی کائنات کے اندھیرے خلا میں پھینک چکے ہیں اور اب
اس کا گلشن پھونک دوں، اس کا شبستاں پھونک دوں
کی فکر میں ہیں۔ اﷲ خیر کرے، کیوں کہ اس نظم کا اگلا مصرعہ ہے،
تخت سلطاں کیا، میں سارا قصرِ سلطاں پھونک دوں۔
شاہ سلمان کے اس بیٹے کی کارروائیاں اور کارستانیاں دیکھ کر کہنے کو دل چاہتا ہے کہ انوکھا لاڈلا، ’توڑن‘ کو مانگے چاند، لیکن وہ انوکھے اور لاڈلے ضرور ہیں مگر بالک نہیں، اِن ’حرکتوں‘ اور اُن کے لیے مجاز کی نظم کی تشبیہ سے یہ نہ سمجھیں کہ ولی عہد صاحب عہد کی طرح جو کچھ توڑ رہے ہیں یہ توڑ پھوڑ عہدِ طفلی کا تقاضا ہے یا حالت جُنوں میں ہورہی ہے، بھئی وہ کہہ چکے ہیں کہ میں سعودی عرب کو معتدل اسلام کی طرف لوٹانے اور اپنے ملک کو کھلے سماج میں بدلنے کی تگ ودو کر رہا ہوں۔ ظاہر ہے لوٹ پوٹ اور اُلٹ پلٹ میں بہت کچھ تلپٹ ہوجاتا ہے۔
ویسے وہ سماج کو جس تیزی سے کھول رہے ہیں لگتا ہے کہ ان کوششوں سے سعودی معاشرہ یوں کھلے گا کہ موصوف کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی اور چونک کر مصاحب سے پوچھیں گے،’کس نے کھولا، کب کُھلا، کیوں کر کُھلا؟“
اپنی مملکت اور رعایا کو جدید بنانے اور سماج کو ’کھولنے‘ کے لیے شہزادے صاحب کتنے پاپڑ بیل رہے ہیں اس کا اندازہ اس خبر سے ہوا کہ یہ جناب شیخ لیونارڈو ڈاونچی کی تخلیق کردہ منہگی ترین پینٹنگ کے خریدار ہیں۔ 500 برس پرانی یہ پینٹنگ انہوں نے 45 کروڑ ڈالر ’ہدیہ‘ دے کر خریدی۔ کسی سعودی شہزادے کا پینٹنگ خریدنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی امریکی اداکار ’موت کا منظر‘ یا ’مرنے کے بعد کیا ہوگا‘ جیسی کتاب منہ مانگی قیمت دے کر حاصل کرے، مولانا فضل الرحمٰن مائیکل جیکسن کے گانوں کی سی ڈیز کے لیے رقم خرچ کریں، شیخ رشید ڈائپر اور نوازشریف دیوان غالب خرید لیں۔
ظاہر ہے ولی عہد نے یہ خریداری پینٹنگ پر تنقیدی مضمون لکھنے کے لیے نہیں کی، یہ ’جدید‘ ہونے کی طوفانی مہم کا حصہ ہے، وہ جدید ہی کیا جسے مصوری سے دل چسپی نہ ہو۔ ویسے اس کے آدھے پیسے وہ ہمیں دیتے تو ہم خود فریم میں تصویر بن کے کھڑے ہوجاتے، جو ’تصویر‘ کی تعریف کرتا اسے دیکھ کر ایک ادا سے مسکراتے اور جو تنقید کرتا اسے منہ چِڑاتے۔
سعودی عرب کو جدید بنانے کے لیے شہزادے کا دوسرا اہم ترین اقدام فرانس میں عظیم الشان محل کی خریداری ہے۔ پیرس کے مغرب میں واقع یہ محل دنیا کا منہگا ترین گھر قرار دیا گیا ہے۔ آپ یہ سُن کر مزید جلیے بُھنیے کہ اس محل میں سنیما اور زیرِ زمین نائٹ کلب بھی بنا ہوا ہے۔ ارے توبہ توبہ، محترم ولی عہد کے کردار، دیانت اور نیت پر ذرا بھی شبہہ مت کیجیے۔ ہمارے خیال میں یہ محل انہوں نے تربیت گاہ بنانے کے لیے خریدا ہے، جہاں سعودیوں کو غول درغول بھیجا جائے گا اور تربیت دے کر جدید بنایا جائے گا۔ اگر ایسا نہیں بھی ہے، تو کیا ہوا، بھئی توڑ پھوڑ اور اکھاڑ پچھاڑ سے تھک جانے والے نازک اندام شہزادے کو آرام کی بھی تو ضرورت ہے، سو جب توڑنے پھوڑنے سے نڈھال ہوجائیں گے تو فرانس پرواز کر جائیں گے، پھر تھکن مٹنے کے بعد اپنے والد بزرگوار کو فون کرکے پوچھیں گے، ’ابو ابو! مملکت بچ گئی ہو تو آجاوں؟‘ دیکھیں انہیں کیا جواب ملتا ہے، ملتا بھی ہے یا نہیں۔
ویسے محض یہ سمجھنا بھی غلط ہوگا کہ ولی عہد صاحب صرف توڑتے ہیں، نہیں نہیں وہ بناتے بھی ہیں، جیسے ڈونلڈ ٹرمپ جو اپنے منہ سے دنیا کے ساتھ تعلقات تک صرف بگاڑنے میں ماہر ہیں، ان سے بھی محمد بن سلمان نے ایسے تعلقات بنائے ہیں کہ امریکی صدر ان پر صدقے واری ہوتے ہوئے کہتے ہیں،’جو چاہے سزا دے لو، تم اور بھی کُھل کھیلو، پر ہم سے قسم لے لو، کی ہو جو شکایت بھی۔‘ لیکن واضح رہے کہ سزا جزا اور کُھل کھیلنے کی اجازت اندرون سعودی عرب اور بیرون مملکت یمن سے شام تک ہے، اسرائیل کی سرحد شروع ہوتے ہی امریکی ’کفیل‘ اپنے سعودی ’رفیق‘ کا یہ اجازت نامہ یا اقامہ منسوخ کردے گا۔
دونوں شخصیات کا تعلق تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن یہ بات عقل میں نہیں سماتی کہ موصوف کی امریکی صدر کے داماد سے دوستی کس کھاتے میں ہے؟ خیر محبت میں تو لیلیٰ کا کُتا بھی پیارا ہوتا ہے، اور یہاں تو بہرحال معاملہ محبوب کے داماد کا ہے۔
معزز شہزادے نے جو دوسری چیز بنائی ہے وہ ’اسلامی فوجی اتحاد‘ ہے۔ اگرچہ ان کا کہنا ہے کہ یہ اتحاد دہشت گردی کے خلاف بنایا گیا ہے، لیکن مخالفین یہ ماننے کو تیار نہیں، جن کا کہنا ہے کہ ولی عہد ہمیں بنا رہے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ اتحاد یہ شعر سُن کر تشکیل دیا گیا ہے،
نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا
پُل بنا، چاہ بنا، مسجد و تالاب بنا
اب اتنا بڑا شہزادہ اور امیر ریاست کا ولی عہد نام بنانے کے لیے پُل، چاہ، مسجد اور تالاب جیسے چھوٹے چھوٹے فیض کے اسباب کیا بناتا، سو اُس نے بھان پتی کا کنبہ جوڑ کر فوج بنا ڈالی۔ اب پتا نہیں اس فوج سے فیض کسے حاصل ہوتا ہے۔
منبع: ڈان نیوز