• صارفین کی تعداد :
  • 3156
  • 11/9/2017
  • تاريخ :

قم المقدسہ کی معروف دینی درسگاہ مدرسہ فیضیہ

مدرسہ فیضیہ میں ایک بہت بڑی لائبریری بھی ہے جسے شیخ عبدالکریم حائری نے تعمیر کروایا تھا اور پھر آیت اللہ بروجردی نے اس میں توسیع کروائی۔ اس وقت اس لائبریری میں تیس ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں کہ جن میں تین ہزار سے زائد نفیس خطی نسخے بھی موجود ہیں۔

قم المقدسہ کی معروف دینی درسگاہ مدرسہ فیضیہ


مدرسہ فیضیہ عالم اسلام کے بہت سے نامور علمائے کرام اور بزرگان دینی کی تعلیم و تدریس کا مرکز رہا ہے۔ سید محمد باقر میرداماد، صدرالمتالہین شیرازی جنہیں ملا صدار کے نام سے پہچانا جاتا ہے، ملا فیض کاشانی، ملا عبدالرزاق لاہیجی، شیخ عبدالکریم حائری، سید حسین بروجردی اور امام خمینی رح جیسی مشہور و معروف شخصیات نے اس مدرسے میں تعلیم حاصل کی اور تدریس و ترویج علم کی خدمات انجام دیں۔

مدرسہ فیضیہ کہ جس کو قدیم الایام میں مدرسہ آستانہ کہا جاتا تھا کا شمار قم المقدسہ کے ان قدیمی مدرسوں میں کیا جاتا ہے کہ جو زمانہ قدیم سے ہی تعلیم و تدریس کا مرکز رہے ہیں۔ یہ مدرسہ سن 939 ہجری قمری میں صفوی دور حکومت میں شاہ طہماسب اول کے دور حکومت میں تعمیر کیا گیا۔ اس مدرسے کے جنوبی ایوان کے دروازے پر کہ جو اس کے قدیمی صحن کی جانب کھلتا ہے شاہ طہماسب صفوی کے نام کا کتبہ آج بھی موجود ہے۔ لیکن مدرسہ فیضیہ کی موجودہ عمارت سن 1214 ہجری قمری میں فتح علی قاجار کے دور حکومت میں اس کی قدیمی بوسیدہ عمارت پر تعمیر کی گئی۔ اس مدرسے کو ملا فیض کاشانی سے نسبت دیتے ہوئے مدرسہ فیضیہ کے نام سے پاکارا جانے لگا چونکہ انہوں نے اس مدرسے میں درس و بحث کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ فیض کاشانی کا شمار شاہ عباس دوم کے دور حکومت میں بزرگ علمائے کرام میں کیا جاتا تھا۔ آپ فقہ، حدیث، تفسیر، اور فلسفے جیسے علوم میں صاحب نظر اور برجستہ شخصیت شمار کئے جاتے تھے جبکہ آپ کی گراں بہا تالیفات آج بھی حوزہ ہائے علمیہ کے طالبعلموں کے لئے نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ آپ ملا صدرا کے شاگرد اور داماد تھے اور آپ نے قم المقدسہ میں اپنے قیام کے دوران مدرسہ آستانہ کو اپنی مذہبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز بنایا اور اس مدت میں تقریبا دو سو سے زیادہ کتابیں اور رسائل تحریر کئے۔ اسی وجہ سے مدرسہ آستانہ کو آپ کے نام سے پہچانا جانے لگا اور آج بھی لوگ اسے مدرسہ فیضیہ کے نام سے پہچانتے ہیں۔

مدرسہ فیضیہ کی دو منزلہ عمارت میں 80 ہجرے ہیں جن میں سے چالیس قاجاریہ دور میں بنائے گئے جبکہ بالائی منزل پر مزید 40 ہجرے 14ویں ہجری صدی میں تعمیر کئے گئے۔ اس کا سب سے قدیمی ایوان جنوبی ایوان ہے جو حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے مزار کے معروف صحن عتیق سے ملحق ہے اور جسے سن 939 ہجری قمری، میں صفوی دور حکومت میں معرق کاری کے زریعے مزین کیا گیا ہے۔ مدرسہ فیضیہ میں کافی سالوں تک طالب علموں کی تعداد انتہائی کم تھی لیکن فتح علی شاہ کے زمانے میں مرزا ابوالقاسم قمی نے یہاں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور پھر کئی نامور اور بزرگ علمائے کرام نے انکے سامنے زانوئے ادب تہہ کئے۔

1340 ہجری قمری کو آیت اللہ العظمیِ حاج شیخ عبدالکریم حائری کی قم المقدسہ آمد نے حوزہ علمیہ اور مدرسہ فیضیہ کو ایک نئی زندگی دی اور پھر حوزہ ہائے علمیہ میں تشکیل پانے والی کلاسوں میں سینکڑوں طالبعلموں نے شرکت کرنا شروع کی اور یہ کلاسیں اسلامی افکار کی ترویج کے مراکز میں تبدیل ہوگئیں۔ آیت اللہ حائری کے زمانے میں مدرسہ فیضیہ کی دوسری منزل تعمیر کی گئی۔ آیت اللہ حائری کی رحلت کے بعد مدرسہ فیضیہ کے امور کی ذمہ داری آیات عظام فیض، حجت اور خوانساری نے سنبھال لی اور پھر 1364 ہجری قمری کو آیت اللہ العظمیٰ سید حسین بروجردی کی قم آمد کے بعد مدرسہ فیضیہ کی رونق میں مزید اضافہ ہوا اور پھر طالبعلموں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہونے لگا۔ آیت اللہ بروجردی نے مدرسہ فیضیہ کی علمی کیفیت کو بھی پروان چڑھایا۔ ان کی مرجعیت کے زمانے میں مدرسہ فیضیہ کو ایک اہم اور معتبر علمی مرکز شمار کیا جانے لگا۔ یہ مدرسہ ان کا تدریس کا مرکز بھی تھا اور یہیں پر ان کی امامت میں نماز جماعت کا بھی انعقاد کیا جاتا تھا۔

آیت اللہ بروجردی کی رحلت کے بعد یہ مدرسہ شاہ ایران کے خلاف امام خمینی رح کی تحریکوں کے اہم مرکز میں تبدیل ہوگیا۔ مدرسہ فیضیہ پر فوج، ساواک، پولیس اور شاہ کے آلہ کاروں نے متعدد مرتبہ چڑھائی کی اور ان واقعات میں کئی افراد شہید اور زخمی کئے گئے۔

22 مارچ 1963 انہی دنوں میں سے ایک دن ہے کہ جب امام جعفر صادق علیہ السلام کے روز شہادت کی مناسبت پر منعقدہ مجلس عزا پر شاہ کے آلہ کاروں نے حملہ کیا تھا۔ یہ واقعہ دراصل امام خمینی رح کی جانب سے امریکی سفید انقلاب کی سازش کی مخالفت پر شاہی حکومت کا ردعمل تھا۔ امام خمینی رح نے 22 جنوری 1962 کو شاہی حکومت کی جانب سے اس سازش کو منوانے کے لئے استعمال کئے جانے والے ہتھکنڈوں کو اجباری ریفرنڈم سے تعبیر کیا تھا اور 26 جنوری کو جب شاہ نے اس منصوبے کو تصویب کر لیا تو امام خمینی رح نے 12 مارچ 1963 کو ایک بیانیہ جاری کر کے نئے ایرانی سال کے آغاز یعنی نوروز کے موقع پر عزائے عمومی کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کے بعد تمام علمائے کرام اور مراجع عظام نے بھی اس امام خمینی رح کے فیصلے کی توثیق کر دی۔

23 مارچ کو مدرسہ فیضیہ پر شاہ کے کارندوں کے حملے نے کہ جس میں طالب علموں کو شہید اور زخمی کیا گیا شاہی حکومت کی اسلام مخالف سازشوں کی قلعی کھول دی۔ اس واقعے کے بعد امام خمینی رح نے کافی عرصے تک مدرسہ فیضیہ کو پہنچنے والے نقصانات کا مشاہدہ کرنے کے لئے عوام کو دعوت دی کہ وہ آئیں اور مدرسہ فیضیہ میں رونما ہونے والے واقعے کی وجہ سے اس مدرسے کو اور یہاں پر مقیم طالبعلموں کو پہنچنے والے نقصانات کا نزدیک سے مشاہدہ کریں۔

امام خمینی رح کی دوسری اہم تقریر 3 جون 1963 کو تھی کہ جو انہوں نے عاشورا کے موقع پر کی۔ آپ نے اپنی تقریر میں شاہ کی صیہونی سیاست اور اسرائیل کی جانب اسکے جھکائو کو برملا کیا۔ اس تقریر کے بعد امام خمینی رح کو گرفتار کر لیا گیا جس کا رد عمل عوامی مظاہروں کی صورت میں سامنے آیا جس کے بعد 15 خرداد 1342 شمسی یعنی 5 جون 1963 کا خونی واقعہ رونما ہوا۔

 

1965 میں اس مدرسے کو ساواک کے حکم پر مرمت کرنے کے بہانے بند کر دیا گیا۔ اسکے 9۹ سال بعد تقریبا 1973 میں بھی ساواک نے اس مدرسے کو بند کرنے کے لئے اقدامات کئے۔ کیونکہ اس مدرسے میں عوام کی فکر سازی کی جاتی تھی اور طالبعلموں کو شاہی ڈکٹیٹر حکومت کے کرتوتوں سے آگاہ کیا جاتا تھا۔ ساواک نے ادارہ اوقاف اور آستان قدس رضوی سے تقاضہ کیا کہ مدرسہ فیضیہ کو انتہا پسند طالبعلموں کے وجود سے پاک کیا جائے۔

 

اسلامی انقلاب کے دوران مدرسہ فیضیہ اسلامی تحریک کا مرکز و محور رہا۔ امام خمینی رح نےچودہ سال جلا  وطنی میں گذارنے کے بعد  1978 میں ایران واپس آکر قم المقدسہ کو اپنا مرکز بنایا جس کی وجہ سے اس علمی مرکز کو ایک تحرک اور تازہ نشاط حاصل ہوئی۔

مدرسہ فیضیہ میں ایک بہت بڑی لائبریری بھی ہے جسے شیخ عبدالکریم حائری نے تعمیر کروایا تھا اور پھر آیت اللہ بروجردی نے اس میں توسیع کروائی۔ اس وقت اس لائبریری میں تیس ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں کہ جن میں تین ہزار سے زائد نفیس خطی نسخے بھی موجود ہیں۔ مدرسہ فیضیہ میں فقہ، کلام، فلسفہ، اصول اور علوم قرآن کے مختلف دروس منعقد کئے جاتے ہیں جن میں سینکڑوں طالبعلم ڈیڑھ سو سے زائد اساتید سے کسب فیض کرتے ہیں۔
https://www.oral-history.ir