بہن بھائیوں میں صلح کروائیں
بہن بھائیوں کے درمیان تعلقات ان کی شخصیت کے نکھار میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ بچہ جس ماحول میں پرورش پاتا ہے ، وہ ماحول بچے کی ذہنی نشوونما کے علاوہ اس کے دوسروں کے ساتھ تعلقات پر بہت اثرانداز ہوتا ہے ۔ اس لیۓ والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ایک دوسرے کے قریب رکھنے کی کوشش کریں تاکہ مستقبل میں ان کے خاندان اور آئندہ آنے والی نسلوں کو ایک بہتر معاشرتی اقدار کا حامل انسان ملے ۔ اپنے بہن بھائیوں سے قریبی روابط رکھنے والے بچے ، معاشرتی مہارت اور بہتر شناخت حاصل کرتے ہیں ۔ اہل فکر حضرات کا بھی یہی کہنا ہے کہ بہن بھائیوں کا باہمی تعلق بہتر یا برے اخلاق اور برتاؤ کا باعث بنتا ہے ۔
بہن بھائیوں کے بہتر تعلقات کے لیۓ مؤثر عوامل
اگر آپ کے دو یا اس سے زائد بچے ہیں تو آپ کو لازمی طور پر اس بات پر غور کرنا چاہیۓ کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو بچوں کے باہمی روابط پر مثبت اور منفی اثرات مرتب کر سکتے ہیں ۔ اس کے متعلق بہت ساری تحاقیق بھی انجام دی جا چکی ہیں ۔ ہم یہاں پر ان تحاقیق کے چند نتائج پر بات کریں گے ۔
اگر بچوں کی عمر میں فرق زیادہ ( چار یا زائد سال ) ہے تب ان کے باہمی تعلقات میں بہتری زیادہ متوقع ہے ۔ یہ نتیجہ بعض اوقات سکول کی سطح پر پڑھنے والے بچوں پر پورا نہیں اترتا ہے اور اس سطح پر ایسے اثرات بچوں میں مشاہدہ نہیں کیے جا سکے ہیں ۔ عام طور پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب دو بچے ایک ہی جنس کے ہوں تو ان کا باہمی رابطہ زیادہ بہتر ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر دو بھائیوں میں بہن بھائی کی نسبت زیادہ قربت نظر آ رہی ہوتی ہے ۔
بعض اوقات جب ماں اپنے چھوٹے بچے پر زیادہ توجہ دے رہی ہوتی ہے اور اس کے ہر سوال کا جواب توجہ سے دیتے ہوۓ اس کا زیادہ خیال رکھ رہی ہوتی ہے تب بڑے بچے پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جس سے بچوں کا باہمی تعلق خراب ہونے کا اندیشہ بھی ہوتا ہے ۔ ایک دوسری تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جب کسی ماں کے دو بچے ایک ہی عمر کے ہوں تو ماں دونوں کے ساتھ یکساں سلوک کر رہی ہوتی ہے ۔
یہ بات بھی یہاں پر اہم ہے کہ ایسے حالات جہاں والدین کی توجہ ایک فرزند پر زیادہ ہو وہاں دوسرے بہن بھائیوں پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور حد سے زیادہ توجہ کو دوسرے بچے منفی طور پر لیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے باہمی تعلقات خراب ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ۔ اگر والدین سب کے ساتھ یکساں سلوک کریں تو ان کے اختلاف ختم ہو جاتے ہیں یا کم سے کم رہتے ہیں ۔
بڑے بچوں کا چھوٹوں کے ساتھ رویہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ اگر بڑا بچہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ نرمی اور اچھے اخلاق سے پیش آۓ تب سب کے درمیان محبت بڑھتی ہے ۔
ماں باپ کے باہمی تعلقات بھی اولاد پر بڑے گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں ۔ جن والدین کی ازدواجی زندگی اختلاف کا شکار رہتی ہے ، ان کے بچے بھی ذہنی طور پر تناؤ کا شکار رہتے ہیں ۔
بہتر روابط کے طریقے
اکثر اوقات یہ بات سامنے آتی ہے کہ بچوں کو اختلافات اور کشیدگی والے حالات سے نمٹنے کا پتہ ہی نہیں ہوتا ۔ بچے یہ جانتے ہی نہیں کہ اگر ایسے حالات پیدا ہو رہے ہوں تو انہیں کیسے قابو کرنا ہے ۔وہ ایسے حالات کے اثرات سے پوری طرح ناواقف ہوتے ہیں ۔ ایسے حالات میں بہتر حکمت علمی یہ ہوتی ہے کہ بچوں کو ایسی مہارات سے روشناس کروایا جاۓ اور انہیں وہ سارے طریقے سکھاۓ جائیں جن سے مستفید ہوتے ہوۓ وہ کشیدہ باہمی تعلقات سے بچے رہیں ۔ بچوں کو یہ سکھایا جانا چاہیۓ کہ ان کے درمیان اگر کسی طرح کے اختلافات ہوں تو اس پر بیٹھ کر بات چیت کی جاۓ ، اگر غصّے کی کیفیت طاری ہے تو اس حالت میں کیا کرنا چاہیۓ ،اگر بحث ایسے نتیجے پر پہنچی ہے کہ دوسرا غصے میں بہت کچھ کہے جا رہا ہے تو ایک دوسرے کی سخت بات کا جواب نہ دیا جاۓ یا اس جگہ سے اٹھ کر چلے جانے میں بہتری ہوتی ہے ۔ والدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ان مہارات سے روشناس کروائیں اور انہیں وہ سب کچھ سکھائیں جن سے بچوں کے باہمی روابط کو بہتر بنانے میں مدد ملے ۔
تناؤ والی کیفیت پیدا کرنے میں بعض اوقات ایسے عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں جن میں بہن بھائیوں کا کوئی کام کرنے کو دل نہیں کر رہا ہوتا ہے اور وہ دن کا زیادہ حصّہ فارغ رہ کر گزارتے ہیں ۔ والدین کو چاہیۓ کہ وہ اپنے بچوں کے لیۓ کسی سرگرمی کا انتظام کریں تاکہ ان کے بچے مصروف رہیں ۔ والدین کے لیۓ ضروری ہے کہ وہ اپنے بڑے بچوں کو چھوٹے بچوں کے ساتھ کھلینے پر مجبور نہ کریں ۔
والدین کا باہمی رابطہ
بعض خاندان جہاں بڑوں کے آپس کے تعلقات اچھے نہ ہوں ۔ مثال کے طور پر اگر والدین کے باہمی تعلقات اچھے نہیں ہیں اور ان تعلقات کی وجہ سے ان کے بچے تناؤ کا شکار ہیں تو والدین کے لیۓ بہتر ہو گا کہ وہ بچوں کے تناؤ کو دور کرنے کے لیۓ اپنے باہمی تعلقات کو بھی ٹھیک کرنے کی کوشش کریں ۔
بعض اوقات بچوں کے متعلق والدین کی توقعات ضرورت سے زیادہ ہوتی ہیں ۔ بعض والدین یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے ان کے سب کاموں میں ان کی مدد کریں ۔ چھوٹے بچوں کے بہت سے کام بھی بڑے بچے کے سپرد کر دیۓ جاتے ہیں ۔ ایسے حالات میں بچوں کا باہمی فاصلہ بڑھنے لگتا ہے ۔ بچوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کو ہمیشہ والدین ختم نہ کریں بلکہ حالات پر نظر رکھتے ہوۓ بچوں کو بھی موقع فراہم کرنا چاہیۓ کہ وہ اپنے اختلافات کو خود حل کرنے کی کوشش کریں ۔
والدین کو اپنے بچوں سے جائز توقعات ان پر واضح کر دینی چاہیۓ ۔ بچوں کو علم ہونا چاہیۓ کہ والدین کس اخلاق کو پسند کرتے ہیں اور گھر میں انہیں کن اصولوں پر کاربند رہنا ہے ۔ مناسب ہو گا اگر مختلف عمر کے بچوں کے ساتھ ان کی عمر کے مطابق پیش آیا جاۓ ۔
ماحول پر نظر
والدین کو چاہیۓ کہ وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کے بچے کس ماحول میں رہ رہے ہیں اور ان کے ارد گرد کونسی اشیاء دستیاب ہیں جن کا وہ استعمال کر رہے ہیں ۔ وہ کونسی ایسی اشیاء ہیں اور وہ کونسے ایسے اوقات ہیں جب ان کے بچے ایک دوسرے سے لڑائی کرتے ہیں ۔ بچے بعض اوقات شخصی آزادی چاہتے ہیں اور الگ کمرے میں رہنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔ اگر مشترک کمرے میں بچے رہ رہے ہوں تب ان کے لیۓ الگ الماری ، بستر ، کرسی میز وغیرہ وغیرہ کا انتظام ہونا چاہیۓ تاکہ وہ ایک دوسرے کی اشیاء استعمال کرنے پر مجبور نہ ہوں ۔
بعض اوقات مشترک اشیاء کو استعمال کرتے ہوۓ بچوں کے باہمی اختلافات شدت اختیار کر جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ٹیلیویژن دیکھتے ہوۓ چینل کی تبدیلی پر لڑائی ہو سکتی ہے ۔ ایسے حالات میں والدین تمام بچوں کے لیۓ ٹی وی دیکھنے پر پابندی لگا دیتے ہیں یا ٹی وی کو بند کرکے انہیں تنبیہہ کرتے ہیں ۔پھر جب بچوں کے درمیان صلح ہو جاتی ہے تب انہیں انعام کے طور پر ٹی وی دکھنے کی اجازت مل جاتی ہے ۔ اس طرح کے اقدامات بچوں کو آپس میں لڑنے سے روکتے ہیں ۔ تمام والدین کے لیۓ ضروری ہے کہ بچوں کی نفسیات کو جانتے ہوۓ ایسے تمام عوامل اور ان کے حل سے آگاہ رہیں جو بچوں میں باہمی اختلافات کا باعث بنتے ہیں ۔
تحریر : ڈاکٹر سحر اعجاز