میدان کربلا اور بنی ہاشم کی قربانیاں ( حصّہ دوّم)
جناب عون نے یزیدی لشکر کے تین سواروں اور 18 پیدل سپاہیوں کو واصل جہنم کیا اور آخرکار لشکر یزید کے ہاتھوں جام شہادت نوش کر گئے۔
ان کے بعد ان کے بھائی محمد اور عبیداللہ بھی راہ حق میں لڑتے لڑتے لشکر یزید کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔
زینب (س) کے بھائی
’’ ابوالفضل العباس‘‘، ’’عبداللہ‘‘، ’’جعفر‘‘ اور ’’عثمان‘‘ امام حسین علیہ السلام اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے چار سوتیلے بھائی تھے۔ ان کی والدہ کا نام ’’فاطمہ ام البنین(س)‘‘ تھا۔
جب حضرت ابوالفضل العباس نے دیکھا کہ اہل بیت میں سے بھی کئی افراد شہید ہوچکے ہیں تو انھوں نے اپنے تینوں بھائیوں سے کہا: ’’پیارے بھائیو! میں چاہتا ہوں کہ تم میری نظروں کے سامنے میدان کارزار میں جاؤ تا کہ میں خدا اور رسول خدا (ص) کی راہ میں تمہارے اخلاص کا مشاہدہ کروں‘‘۔
حضرت عباس (ع) کے تینوں بھائی باری باری میدان جنگ میں چلے گئے اور اپنے اپنے رجز میں سب نے ’’فرزند علی (ع)‘‘ کے عنوان سے اپنا تعارف کرایا اور علوی شجاعت کے جوہر دکھلانے کے بعد جام شہادت نوش کر گئے۔
عثمان بن علی، جنکے بارے میں امیرالمؤمنین نے فرمایا: ’’میں نے اپنے بھائی عثمان بن مظعون (صحابی رسول اللہ (ص)) کے نام پر اپنے اس بیٹے کا نام ’’عثمان‘‘ رکھا‘‘،۲۱ سالہ نوجوان تھے۔ دشمن نے جب ان کی دلیرانہ جنگ دیکھی تو اس ہاشمی نوجوان کو قتل کرنے کے لئے تیراندازی کا سہارا لیا۔ ’’خولی‘‘ نے اپنے تیر سے ان کے پہلو کو نشانہ بنایا اور ثانی زہرا (س) کے بھائی زین سے زمین پر آ گئے، اسی حال میں ایک شقی القلب یزیدی نے ان کے مجروح جسم پر حملہ کیا اور انہیں شہید کرکے ان کا سر تن سے جدا کر دیا۔
ان چھے جوانوں کو شہید ہوتے ثانی زہراء زینب کبری نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ کربلا کی اس شیرزن نے نصف یوم کے دوران اپنے کئی بیٹوں، بھائیوں، بھتیجوں اور چچازاد بھائیوں کو خاک و خوں میں ٹرپتے دیکھا اور ان کے سروں کا نوک سناں پر مشاہدہ کیا… امان از دل زینب۔۔۔
الا لعنة اللہ علی القوم الظالمین و سیعلم الذین ظلموا ایّ منقلب ینقلبون
منابع:
۱. سيد بن طاووس ؛ اللهوف في قتلی الطفوف ؛ قم: منشورات الرضي، ۱۳۶۴ .
۲. شيخ عباس قمي ؛ نفس المهموم ؛ ترجمه و تحقيق علامه ابوالحسن شعراني ؛ قم: انتشارات ذويالقربی، ۱۳۷۸بشکریہ ابنا نیوز