بھارت حملہ کیوں نہیں کر سکتا! ( تیسرا حصّہ )
ان حالات میں صدر باراک اوباما کی حکومت کےلئے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بدترین خبر ہوگی۔ اس لئے امریکہ اور دیگر مغربی طاقتیں نہ تو اس بات پر تشویش کا شکار ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی مرتکب ہو رہی ہیں اور نہ ہی کوئی بھارت کے اس جارحانہ موقف کو ماننے کو تیار ہے کہ پاکستان دہشت گردی کی سرپرستی کر رہا ہے اور اسے دہشت گرد ریاست قرار دیا جائے۔ واشنگٹن سمیت دیگر دارالحکومتوں میں البتہ اس بارے میں ضرور تشویش پائی جاتی ہے کہ برصغیر کے ایٹمی صلاحیت کے حامل دو ملکوں کے درمیان مسلح تصادم کو روکا جا سکے۔ خاص طور سے امریکہ کےلئے یہ صورتحال دو وجہ سے زیادہ پریشانی کا سبب ہے۔ اول یہ کہ صدر باراک اوباما نے اپنے دور حکومت میں بھارت کو حلیف بنانے اور اس کے ساتھ مل کر بحر ہند اور بحر جنوبی چین میں چین کا ’’محاصرہ‘‘ کرنے یا اس کا راستہ محدود کرنے کےلئے پیش رفت کی ہے۔ اس لحاظ سے بھارت سے قریبی تعلقات اور دوستی امریکہ کو صدر اوباما کا اہم ترین تحفہ ہے۔ لیکن اگر ایسا حلیف ملک جسے چین کی معاشی اور اسٹریٹجک قوت کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ، پاکستان جیسے چھوٹے ہمسایہ ملک پر حملہ کرنے کی حماقت کرے گا تو اوباما حکومت کا بھارت کے ساتھ مل کر چین کے خلاف محاذ بنانے کا منصوبہ منہ کے بل آ گرے گا۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ امریکہ کسی بھی قیمت پر پاکستان سے قطع تعلق کرنے یا اسے مکمل طور سے تنہا کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ افغانستان میں حالات کو کنٹرول کرنے کےلئے اب بھی پاکستان کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ عام لوگوں کو سنانے کے لئے مخالفانہ بیانات دینے کے باوجود امریکہ یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ طالبان کی جس قوت کو اتحادی افواج پندرہ برس کے دوران کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہیں، انہیں پاکستان تن تنہا کس طرح امریکی شرائط ماننے پر مجبور کر سکتا ہے۔
اس دوران بھارت کشمیر میں اپنی عاقبت نااندیشانہ پالیسیوں کی وجہ سے اور افغانستان کے صدر اشرف غنی اپنے ہی ملک میں سیاسی بے چارگی کی بنا پر پاکستان پر الزام تراشی کرکے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حالات خراب کرنے میں ان کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔ البتہ پاکستان پورے خطے میں دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔ امریکہ بخوبی جانتا ہے کہ پاکستانی فوج نے تن تنہا اور مسلسل الزام تراشی کے ماحول میں بھی گزشتہ دو برس کے دوران دہشت گردی کے خلاف قابل ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اگر پاکستانی فوج آپریشن ضرب عضب کے ذریعے موثر فوجی اقدامات نہ کرتی تو داعش جیسا گروہ جو امریکہ کی سنگین غلطیوں کی وجہ سے دولت اسلامیہ کے نام سے شام اورعراق کے علاقوں میں اپنی حکومت قائم کر چکا ہے ۔۔۔۔۔۔ افغانستان کے علاوہ پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی مضبوط گروہ استوار کرنے میں کامیاب ہو جاتا۔ اگرچہ پاکستان کی جنگ صرف تحریک طالبان پاکستان تک محدود رہی ہے لیکن متعدد عالمی ماہرین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پاک فوج بیک وقت اس علاقے میں پروان چڑھنے والے سب عسکری گروہوں ، خاص طور سے افغان طالبان کے خلاف فوجی کارروائی نہیں کر سکتی۔ اس کے علاوہ بھارت نے جس طرح امریکہ کی مدد سے افغانستان میں پاؤں جمائے ہیں اور کابل کے ساتھ اپنے تعلقات کو پاکستان کے خلاف محاذ آرائی کےلئے استعمال کیا ہے، اس صورتحال میں پاک فوج کی طرف سے سب گروہوں کے خلاف یکساں شدت سے کارروائی کرنے کے امکانات محدود کردیئے گئے ہیں۔ پاکستان سب سے پہلے اپنی سلامتی کے تقاضے پورے کرنا ضروری سمجھے گا۔
تاہم اس دوران ماضی میں کی گئی غلطیاں اور بلوچستان سمیت دیگر علاقوں میں سیاسی اختلافات کو طاقت سے دبانے کی حکمت عملی پاکستان کےلئے مشکلات کا سبب بنی ہوئی ہے۔ اسی لئے بھارت بار بار بلوچستان میں انسانی حقوق اور ’’آزادی کی تحریک‘‘ کی بات کرتا ہے۔ اور ماضی میں بھارت کے خلاف جہاد کرنے والے بعض گروہوں کی پاکستان میں موجودگی کو پاکستان کے خلاف دلیل کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکہ اگر اس بارے میں پاکستان سے کوئی تقاضہ کرے گا تو اسے مقبوضہ کشمیر میں تقریباٌ تین ماہ سے جاری تحریک اور بھارتی افواج کے مظالم کے بارے میں پاکستان کا موقف بھی سننا پڑے گا۔ ان حالات میں امریکہ اور خاص طور سے اپنی صدارت کے آخری ماہ پورے کرنے والے صدر اوباما کے لئے بہترین آپشن یہ ہے کہ وہ اسلام آباد اور نئی دہلی کو اشتعال انگیزی سے باز رہنے کی تلقین کریں۔
بھارت، امریکہ کی مرضی کے بغیر پاکستان پر حملہ کرنے کی غلطی نہیں کرے گا۔ اگر اس نے یہ حماقت کی تو امریکہ کے ساتھ مل کر دنیا کی نمایاں اور بڑی طاقت بننے کا خواب چکنا چور ہو جائے گا۔
بشکریہ ہم سب نیوز