بھارت حملہ کیوں نہیں کر سکتا!
اوڑی فوجی ہیڈ کوارٹرز پر دہشت گرد حملہ سے پیدا ہونے والی صورتحال میں اگرچہ بھارت نے اپنی رائے عامہ کو پاکستان کے خلاف جنگ کےلئے تیار کرنا شروع کر دیا تھا لیکن نئی دہلی سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق حکومت ابھی تک اس بارے میں گومگو کا شکار ہے۔ تند و تیز بیانات اور پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے کے بعد نریندر مودی کی انتہا پسند حکومت نے خود کو سیاسی لحاظ سے نہایت مشکل صورتحال میں پھنسا لیا ہے۔ ایک طرف کسی ثبوت اور تصدیق کے بغیر پاکستان کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے، یہ تک کہہ دیا گیا کہ حملہ آوروں کے پاس پاکستانی اسلحہ ، خوراک کے ڈبے اور جی پی ایس تھے، جن سے واضح ہوتا ہے کہ وہ لائن آف کنٹرول پار کر کے پاکستان سے حملہ کی نیت سے بھارت آئے تھے۔ پاکستان کی طرف سے ان الزامات کو مسترد کئے جانے کے بعد یہ دعویٰ کیا گیا کہ 20 ستمبر کو اوڑی سیکٹر میں پاکستان سے بھارت آنے والے 8 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔ یہ اطلاعات بھی غلط ثابت ہو چکی ہیں۔ اس دوران وزیراعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے بارے میں بات کی ہے اور اکثر مبصرین کے خیال میں پاکستان کا موقف بھرپور طریقے سے پیش کیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی بھارت کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کی پیشکش دہرا کر انہوں نے بھارتی سیاستدانوں اور سفارت کاروں کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی سے لے کر اقوام متحدہ میں اس کے نمائندوں کے پاس اب مذاکرات سے مسلسل انکار کےلئے ایک ہی دلیل ہے کہ پاکستان سے اس وقت تک بات چیت نہیں ہو سکتی جب تک وہ ہاتھ میں بندوق پکڑے ہوئے ہے۔ یعنی بھارتی دعوے کے مطابق کشمیریوں کی جائز تحریک آزادی کی حمایت جاری رکھے گا جسے بھارت دہشت گردی کی حمایت قرار دیتا ہے ۔ اوڑی حملہ کے بعد بھارتی نمائندوں نے پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دینا شروع کیا ہے لیکن دنیا اس کے ان بے بنیاد الزامات کو ماننے یا ان کی بنیاد پر پاکستان کو تنہا کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ اگرچہ بھارتی میڈیا، پاکستان کے بعض مبصرین کی طرح تواتر سے یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ پاکستان اس وقت پوری دنیا میں تنہا ہو گیا ہے اور ہر ملک نے اس کے موقف کو مسترد کر دیا ہے۔ پاکستان کو اوڑی حملہ سے پہلے بھی افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے مشکلات کا سامنا تھا۔ امریکہ پندرہ سال جنگ کرنے کے بعد طالبان کو شکست دینے یا مذاکرات پر آمادہ کرنے میں ناکام ہونے کے بعد اس صورتحال کی ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے سارا الزام پاکستان پر عائد کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ حقانی نیٹ ورک پاکستانی علاقوں سے افغانستان میں کارروائیاں کرتا ہے۔ اس طرح پاکستان پر اس پالیسی کے خلاف دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ طاقتور بھارتی لابی بھی واشنگٹن میں پاکستان کے خلاف فضا تیار کرنے میں متحرک ہے، اس لئے کبھی پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی ترسیل روکنے کا اقدام ہوتا ہے اور کبھی فوجی امداد کو جزوی طور پر روکا جاتا ہے۔ بھارت نواز امریکی کانگریس کے ارکان بھی اکثر پاکستان کےخلاف بلند بانگ دعوے کرتے رہتے ہیں۔ اس لئے پاکستانی حلقے بھی یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ پاکستان سفارتی دنیا میں بالکل تنہا ہو چکا ہے۔ ( جاری ہے )