امام خميني اور اسلامي انقلاب کي جمہوري بنياديں ( حصّہ چہارّم )
اس دور ميں بھي ايران کے علماء مجتہدين کا سب سے بڑا مسکن ديگر شيعہ علماء کي طرح نحف اشرف ہوتا تھا جہاں امام علي کرم اللہ وجھہ کا روضہ مبارک موجود ہے اسي نجف کے بارے ميں حکيم الامت شاعرمشرق کہتے ہيں:
خيرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے ميري آنکھ کا خاکِ مدينہ و نجف
نجف عراق ميں واقع ہے جو اس وقت خلافت عثمانيہ ميں شامل تھا شيعہ علماء بھي اپنے سني بھائيوں کي طرح خلافت عثمانيہ کو مضبوط اور توانا ديکھنا چاہتے تھے عراق کے شيعہ علماء نے خاص طور پر سني علماء کي طرف سے خلافت عثمانيہ ميں اصلاحي کوششوں کي حمايت کي اور خلافت عثمانيہ کو کمزور کرنے والي ہر کوشش کا سر دھڑ کي بازي لگا کر مقابلہ کيا البتہ ايران سے تعلق رکھنے والے شيعہ علماء نے مشروطيت کے نام سے شاہي مطلق العنانيت کے خلاف اور نمائندہ دستوري حکومت کے حق ميں زبردست تحريک چلائي مشروطيت کا ساتھ دينے والي سب سے بڑي شخصيت امام المجتھدين ملا محمد کاظم خراساني تھے يہ شيعہ اصول فقہ پر آج تک لکھي گئي بہترين کتاب کفاية الاصول کے مصنف ہيں بڑے بڑے مجتہدين ان کي علمي قابليت اور قدرومنزلت کے سبب ان کے سامنے اپنے آپ کو طفل مکتب محسوس کرتے تھے انھوں نے مشروطيت کي حمايت ميں مزيد دو علماءشيخ محمد عبداللہ مازندراني اورشيخ محمد حسن تہراني کے ساتھ مل کر فتوي جاري کيا تھا اسي دور ميں علامہ نائيني نے مشروطيت کے حق ميں تنبيہ الامة وتنزيہ الملہ تحرير کي اور پہلي دفعہ فقيہ کي سربراہي ميں حکومت (ولايت فقيہ)کا تصورپيش کيا يہ حقيقت انتہائي افسوس ناک ہے کہ اس وقت کے سب سے بڑے مرجع تقليد آقائے سيد کاظم يزدي نے تحريک مشروطيت کي سختي سے مخالفت کي تھي پہلے پہل تو بادشاہ وقت کومشروطيت کي تحريک کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا اور يہ تحريک کاميابي سے ہمکنار ہوئي مگر يہ کاميابي دير پا ثابت نہ ہو سکي کچھ عرصہ بعد پھر سے مطلق العنان بادشاہت کا دور دورہ شروع ہوا قاچاري بادشاہوں کي جگہ فرعون صفت محمد رضا پہلوي منصب شاہي پر جاگز ين ہوا اول الذکر کو ايران کي سياسي تاريخ ميں استبداد صغير اور ثاني الذکر کو استبداد کبير کہتے ہيں ( جاري ہے )