• صارفین کی تعداد :
  • 11802
  • 6/23/2016
  • تاريخ :

امام خميني اور اسلامي انقلاب کي جمہوري بنياديں ( حصّہ سوّم )

ایران کا اسلامی انقلاب امید کی کرن ( حصّہ چہارّم )


دوسري سمجھنے کي بات يہ ہے کہ کسي مسلمان ملک يا معاشرے ميں يا اصولي طور پر آج کے دور ميں يا کسي اور زمانے ميں کسي طرح کا سياسي نظام يا نظام حکومت ہونا چاہيے يہ مسلمہ طورپر ايک تحقيقي اورنظري مسئلہ ہے اور اس کا تعلق علم الکلام سے ہے اس ميں عام لوگ اگر کسي اسلامي دانشور يا عالم کي نگارشات وفرمودات کي طرف رجوع کرتے ہيں تو وہ صرف مسئلے کو سمجھنے اور رہنمائي حاصل کرنے کے لئے ہوتا ہے سارے تحقيقي اور نظري مسائل ميں يہي رويہ اختيار کرنا ہوتا ہے اس کے برژس عام مسلمانوں کے لئے عبادات ومعاملات کے مسائل عمليہ ميں کسي ايسے عالم کي طرف رجوع کرنے کے سوا کوئي چارہ نہيں ہوتا جواجتہاد کرکے مسائل فقہ کي تخريج کرتا ہو اس رجوع کرنے کو تقليد کہتے ہيں?مگراس مجتہد يا فقيہ کے لئے علوم عربيہ، اصول فقہ اورقرآن وسنت کا ماہر ہونے کي حيثيت سے وہ سارے مسائل نظري ہوتے ہيں اسي لئے ايسے ماہر کے لئے ان ميں اجتہاد واجب اور تقليد حرام ہوتي ہے تاہم نظري مسائل ميں ہر کسي کے لئے تقليد مکروہ اور حرام ہوتي ہے۔

ايران کے اسلامي انقلاب ميں کارفرما سياسي عمل کو سمجھنے کے لئے ہميں انقلاب سے سو سال سے بھي زيادہ پيچھے جانا ہو گا انيسويں صدي ميں دو امور نے دنيائے اسلام کے ارباب علم ونظر اور اصحاب دانش وبينش کو بہت متاثر کيا ان ميں سے ايک تو يورپي استعماري ممالک کي افريقہ اور ايشيا ميں فتوحات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا اور دوسرا يورپ ميں فکري، سياسي اور صنعتي انقلابات کا پيہم ظہور تھا يورپ ميں نشاة ثانيہ روشن خيالي (عربي ميں اسے تنور کہتے ہيں) انقلاب فرانس، برطانيہ ميں جمہوري طرز حکومت کا ظہور وغيرہ حقائق نے عالم اسلام کے فہميدہ طبقات ميں حل چل مچادي تھي يورپ ميں چلنے والي تحريکوں ميں بہت سي ايسي قدروں کو اجاگر کيا گياجن کا شمار مسلمانوں کي گم گشتہ ميراث ميں کيا جاسکتا ہے امام علي کي شہادت کے نتيجے ميں جو نظام خلافت وحکومت نابود ہوا اس کو پھر سے زندہ کرنے کے لئے کئي کر بلائيں وجود ميں آئيں مگر وہ نظام پھر قائم نہ ہو سکا چوتھي اور پانچويں صدي ہجري کے دوران تمام انقلابي اقدامات کي ناکاميوں نے علماءميں اس تاثر کو مضبوط سے مضبوط تر کيا کہ انقلاب لانا تو ناممکن ہے اس لئے بادشاہي پرہي گزارا کرنا پڑے گا وہ زيادہ سے زيادہ بادشاہوں کو پندونصيحت کرنے پر اکتفا کرنے لگے ۔

يورپ کے نت نئے مثبت انقلابوں نے عالم اسلام ميںبہت سے علماءاوراہل دانش کے دلوں کو پھر سے حسيني ارمانوں سے منور کر ديا ۔ انھوں نے عالم اسلام ميں بھي سياسي اصلاحات کے لئے کوششوں کا آغاز کيا سيد جمال الدين افغاني کے نام سے کون واقف نہيں  ديگر مصلحين ميں علامہ کو کبي اور شيخ محمد عبدہ جيسي بلند قامت شخصيات شامل ہيں مشرق وسطي ميں اس وقت دو ملک تھے ايک خلافت عثمانيہ اور دوسرا ايران خلافت عثمانيہ ميں نظام حکومت کو نمائندہ دستوري جمہوري بنانے کے لئے بہت سے علماء اور مفکرين نے بھرپور کوششيں کيں پہلے کچھ کاميابياں بھي حاصل ہوئيں خلافت عثمانيہ ميں آئين کے مطابق ايک نمائندہ دارالشوري کا قيام بھي عمل ميں آيا شاہي مزاج خليفہ نے آئين کو منسوخ کرکے مارشل لاءنافذ کيا اور پھر سے مطلق العنان حکمران کي طرح حکومت کرنا شروع کي اگر وہ ايسا نہ کرتا تو تقريباً 30سال بعد خلافت عثمانيہ کا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں ميں بٹنا بہت دشوار ہوتا ( جاري ہے )