ماہ رمضان المبارک خطبہ شعبانيہ کے آئينہ ميں ( پانچواں حصّہ )
چوتھا محور : حضرت علي - کا تعارف
رسول خدا حضرت علي عليہ السلام کے سوال کا جواب دينے کے بعد رونے لگے اميرا لمومنين (ع) نے عرض کيا: يا رسول اللہ! آپ(ص) کے گريہ کا سبب کيا ہے آپ (ص) نے فرمايا: اے علي (ع)! ميں تمہارے لئے رورہا ہوں اس لئے کہ ايک دن اسي مہينہ ميں تمہارا خون بہايا جائے گا گويا ميں ديکھ رہا ہوں کہ تم بارگاہ الہي ميں نماز ميں مصروف ہو اور اولين و آخرين ميں سب سے شقي اور بدبخت شخص تمہارے سر پر ضربت لگا رہا ہے اور تمہاري داڑھي سر کے خون سے رنگين ہوگئي ہے حضرت علي عليہ السلام نے رسول خدا کے اس کلام کو سننے کے بعد ايک بہت ہي اہم اور سبق آموز سوال فرمايا: کيا اس وقت ميرا دين سالم ہو گا رسول خدا نے فرمايا: بے شک ، سالم ہو گا۔
حضرت علي - کا يہ سوال اس بات کي علامت ہے کہ ايک مومن کو کس حد تک اپنے دين و ايمان کي سلامتي کي فکر ميں رہنا چاہئے، بالخصوص موت اور اس دار فاني سے دار بقا کي طرف کوچ کرتے وقت اس لئے کہ بعض روايت کي روشني ميں موت کے وقت شيطان اپني پوري کوشش کر ڈالتا ہے کہ کسي طرح مومن کے ايمان کو اس سے چھين لے بسا اقات ايسا بھي ہوتا ہے کہ انسان ايمان و اعتقاد کے ساتھ زندگي بسر کرنے کے باوجود اپنے بعض گناہوں کي وجہ سے موت کے وقت ايمان سے ہاتھ دھو بيٹھتا ہے اور ہميشہ ہميشہ کے لئے شقي و بدبخت بن جاتا ہے۔
لہذا ہميں چاہئے کہ بارگاہ الہي ميں تضرع و زاري اور اوليائے خدا سے توسل کے ذريعہ اپنے ايمان کو ان حضرات کے حوالہ کر ديں اور ان سے درخواست کريں کہ موت کے وقت ہمارے ايمان کو ہميں واپس کر ديں اور اس کي حفاظت فرمائيں تاکہ ہم اس دنيا سے باايمان رخصت ہوں اور اس طرح زندگي بسر کريں کہ جب موت کا وقت نزديک آئے تو ہم اطاعت معبود ميں ہوں قرآن مومنين سے ايسي ہي موت چاہتا ہے: يَا?َيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا ا?َ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلاَتَمُوتُنَّ الاَّ وَ?َنْْتُمْْ مُسْْلِمُونَ. سورہ آل عمران،آيت
’’ايمان والو! اللہ سے اس طرح ڈرو جو ڈرنے کا حق ہے اور خبردار ايسي حالت ميں مرنا کہ تم مسلمان ہو‘‘ ( جاري ہے )