آيت الله العظمى سید شهاب الدین مرعشى نجفى ( حصّہ ششم )
اُسی موقع کاظم دجیلی آ پهنچا جو کتاب خریدنے میں برطانویوں کا دلال تھا، وه قدیمی کمیاب اور نادر کتابوں کو هر طریقه سے حاصل کرتا تھا اور نجف اشرف میں برطانوی حاکم «میجر» کے پاس لے جاتا تھا اور وه اِس طرح کی کتابوں کو لندن کتابخانه میں بھیج دیتا تھا، چنانچه کاظم نے زبردستی میرے هاتھ سے کتاب لے لی اور اُس خاتون سے کها: میں اِس سے زیاده میں یه کتاب خرید لوں گا اورپهر اُس نے هم سے زیاده قیمت لگائی، اُس موقع پر میں نے غم و اندوه کے عالم میں حضرت امیرالمومنین علیه السلام کے حرم کی طرف رخ کیا اور آهسته سے عرض کی:
«اے میرے مولا و آقا! میں اِس کتاب کو خرید کر آپ کی خدمت کرنا چاهتا هوں، لهذا آپ اِس بات پر راضی نه هوں که یه کتاب میرے هاتھ سےنکل جائے»۔
ابهی میری گفتگو تمام نه هوئی تھی که اُس خاتون نے اُس دلال کی طرف رخ کرکے کها: یه کتاب میں نے انھیں فروخت کر دی هے، اب تمهیں فروخت نهیں کر سکتی۔ یه سن کر کاظم دلال هار مان کر غصه میں وهاں سے چلا گیا۔۔۔ همارے پاس 20 روپیه سے زیاده نهیں تھے، هم نے اپنے پرانے کپڑے اور گھڑی کو فروخت کر ڈالا تاکه کتاب کے پیسه جمع کریں، لیکن کچھ هی دیر کے بعد کاظم دلال چند پولیس والوں کے ساتھ آیا اور انھوں نے مدرسه پر حمله بول دیا، اور همیں پکڑ کر اُس برطانوی «میجر» کے پاس لے گئے، اُس نے پهلے هم پر کتاب کی چوری کا الزام لگایا اوراُس نے بهت زیاده چیخ پکار سے کام لیا ۔۔۔ اُس کے بعد اُس نے حکم دیا که همیں قیدخانه میں بهیج دیا جائے، چنانچه اُس رات قیدخانه میں خداوندعالم سے راز و نیاز کیا تاکه وه کتاب جهاں چھپائی هے محفوظ رهے، دوسرے روز شیخ الشریعه کے نام سے مشهور مرجع عظیم الشان مرزا فتح الله نمازی اصفهانی نے هماری آزادی کے لئے مرحوم آخوند خراسانی کے بیٹے مرزا مهدی کو چند لوگوں کے ساتھ حاکم شهر کے پاس بھیجا، آخرکار نتیجه یه هوا که همیں زندان سے آزاد کر دیا گیا البته اِس شرط کے ساتھ که ایک ماه بعد کتاب برطانوی حاکم کو دیدیں۔ ( جاری ہے )
متعلقہ تحریریں:
شيخ فضل اللہ نوري کي زندگي پر ايک مختصر نظر
مدرس کے حالات زندگي