لاھورسانحہ حکومت کی سکیورٹی پالیسیاں ناکام
لاھور میں دہشتگردانہ بم دھماکے سے اس بات کی ضرورت محسو س ہوتی ہےکہ حکومت اسلام آباد اپنی سیکورٹی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے۔
پاکستان کے شہر لاھور میں گذشتہ روز ایک دہشتگردانہ بم دھماکے میں ستر سے زائد افراد جاں بحق اور تین سو زخمی ہوئے ہیں۔ یہ دہشتگردانہ بم دھماکہ لاھور کے گلشن اقبال پارک میں ہوا۔
لاھور دہشتگردانہ واقعے کے کچھ گھنٹوں بعد پاکستان کے سیکوریٹی ذرائع نے اعلان کیا کہ اس حملے میں ملوث افراد کی شناخت کرلی گئی ہے۔ پاکستانی پولیس میں انسداد دہشتگردی شعبے نے بھی کہاہے کہ پندرہ مشتبہ افراد کو اس بم دھماکے کے سلسلے میں گرفتار کرلیا گیا ہے جن میں اس خود حملہ آور کے تین بھائی بھی شامل ہیں۔ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے ایک خصوصی اجلاس میں فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ اور آپریشنل کمانڈر سے تبادلہ خیال کیا۔ یہ اجلاس لاھور دہشتگردانہ واقعے کا جائزہ لینے کے لئے منقعد ہوا تھا۔جنرل راحیل شریف نے کہا کہ پاکستان اس وقت جنگ کی حالت میں ہے اور فوج ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ دہشتگرد کھلے بندوں بے گناہ عوام کا قتل عام کرتے پھریں۔
اگرچہ پاکستان کے مختلف شہروں میں دہشتگردانہ بم دھماکے ایک معمول کی بات بن گئے ہیں لیکن پاکستانی عوام لاہور کےگلشن اقبال پارک میں ہونے والے گذشتہ روز کے بم دھماکےسے بے حد متاثر دکھائی دیتے ہیں کیونکہ اس میں جاں بحق ہونے والوں میں زیادہ تر تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں تین دن اور صوبہ سندھ میں ایک اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ایک ایک دن عام سوگ کا اعلان اس بات کا کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان کے عوام دہشتگردوں کے ہاتھوں بچوں اور خواتین کا قتل عام کرنے میں دہشتگردوں کی بے رحمی سے بے حد متاثر ہوئے ہیں۔دسمبر دو ہزار چودہ میں پاکستان کے شہر پیشاور میں فوج کے ایک اسکول پر دہشتگردوں کے حملے کے بعد جس میں ایک سو تیس افراد مارے گئے تھے گذشتہ روز گلشن اقبال پارک میں ہونے والا دہشتگردانہ حملہ سب سے بڑا حملہ ہے جس سے ایک بار پھر حکمران پارٹی مسلم لیگ کی سکیورٹی پالیسیاں، مخالف پارٹیوں اور عوام کے مختلف گروہوں کی شدید تنقیدوں کا نشانہ بن سکتی ہیں۔ گلشن اقبال پارک کے دہشتگردانہ واقعے سے یہ یہ پیغام ملتا ہے کہ انتہا پسند گروہوں سے مقابلہ کرنے کی پاکستان کی حکمران پارٹی کی پالیسیاں غیر موثر ہیں۔ حکومت پاکستان نے قبائلی علاقوں میں ضرب عضب اور قومی ایکشن پلان شروع کرکے پورے ملک میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی، انتہا پسندی اور تشدد کا مقابلہ کرنے کی کوشش شروع کی تھی لیکن مختلف معیارات کے مطابق یہ کہا جاسکتا ہےکہ نواز شریف حکومت کو ان دونوں پروگراموں پر عمل درآمد کرکے پاکستانی عوام کی سیکورٹی توقعات کو پورا کرنے میں ناکامی ہوئی ہے۔ کچھ مہینوں قبل پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے ایک رپورٹ پیش کی تھی جو دہشتگردی کا مقابلہ کرنے میں قومی ایکشن پلان کی ناکامی کے بارے میں تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر لاھور میں گلش اقبال پارک میں دہشتگردانہ بم دھماکہ ایک بار اس ضرورت کو ثابت کرتا ہے کہ نواز شریف کی حکمران پارٹی کو اپنی سیکورٹی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔لاھور میں دہشتگردانہ واقعے کے بعد شہر اسلام آباد میں سیکورٹی برقرار رکھنے کے لئے فوج کا تعینات کیا جانا اس بات کی علامت ہے کہ دارالحکومت میں بھی نواز َسرکار کے سیکورٹی پروگرام کار گر ثابت نہیں ہوئے ہیں اور پاکستان کے عوام کی نظر میں یہ بات ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔