• صارفین کی تعداد :
  • 4600
  • 3/28/2016
  • تاريخ :

سعودی عرب میں گھٹن کا ماحول

سعودی عرب میں گھٹن کا ماحول

سعودی عرب میں جمہوریت کی علامتیں یکسر ناپید ہیں اور حکومت بھی جمہوریت کے اصولوں کی مخالف ہے۔

سعودی عرب سے موصولہ اطلاعات کے مطابق اس ملک میں گھٹن کی فضا میں شدت آئی ہے۔ آل سعود کی حکومت حکام کے خلاف عوام کی احتجاج کو کچلنے کے شدید اقدامات اور ہر طرح کی حریت پسندانہ آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ ان ہی اقدامات کے تحت آل سعود نے صحافیوں کے خلاف بھی اقدامات شدید کردئے ہیں۔ یاد رہے حالیہ مہینوں میں آل سعود کی عدالتوں نے غیر منصفانہ فیصلے سنا کر صحافیوں سمیت بہت سے شہریوں کو گرفتار کرکے خوفناک کال کوٹھریوں میں ڈال دیا ہے۔ ادھر آل سعود کی ایک عدالت نے ایک اور صحافی کو گرفتار کرکے پانچ سال قید کی سزا سنائی ہے۔ مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں ایمنسٹی اینٹرنیشنل کے شعبہ کے سربراہ جیمز لینچ نے جمعے کو اعلان کیا تھا کہ سعودی عرب کی عدالت نے علا برنجی نامی صحافی کو سوشل میڈیا پر آل سعود کے حکام کے خلاف پیغامات نشر کرنے کے جرم میں پانچ سال قید کی سزا سنائی ہے اور انہیں آٹھ سال تک ملک سے باہر جانے سے روک دیا ہے۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ سعودی عرب میں آزادیوں کی پامالی کے ساتھ ساتھ آل سعود نے صحافتی سرگرمیوں کو زیادہ سے زیادہ محدود کرنے کے لئے ایک اور مصنف کو قید کی سزا سنائی ہے۔ اس سلسلے میں سعودی عرب کی عدالت نے سعودی مصنف زھیر کتبی کو حکومت کے خلاف سیاسی سرگرمیاں انجام دینے کے جرم میں چار سال قید کی سزا سنائی ہے اور انہیں دس سال لکھنے سے روک دیا ہے۔ زہیر کتبی کو ایک ٹی وی پروگرام میں سعودی حکومت پر تنقید کرنے اور اصلاحات کا مطالبہ کرنے کےجرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔ زہیر کتبی نے ٹی وی پروگرام میں سعودی عرب میں سیاسی اور مذہبی گھٹن پر تنقید کرتے ہوئے ملک میں سیاسی اصلاحات کی ضرورت پر تاکید کی تھی۔ ادھر اطلاعات ہیں ایک اور صحافتی شخصیت رائف بدوی کو بھی اپنے وبلاگ میں سعودی پولیس کے خلاف مضمون لکھنے کے الزام میں دس سال قید اور ایک ہزار کوڑوں کی سزا دی گئی تھی۔ رائف بدوی کے کیس پر عالمی سطح پر وسیع رد عمل سامنے آیا تھا۔

سعودی عرب میں سیاسی رہنماوں اور صحافتی شخصیتوں کی گرفتار ایسے عالم میں جاری ہے کہ انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں نے آل سعود کی اس پالیسی پر وسیع پیمانے پر تنقید کی ہے۔ آل سعود کا حکومتی نظام موروثی ہے اور عوام کو ملک کے امور میں کسی طرح کا کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے، اس ملک میں جمہوریت کی تمام علامتیں جیسے انتخابات، سیاسی پارٹیوں کا وجود اور میڈیا کی آزادی کو بھلادیا گیا ہے اور قرون وسطی کی ان روشوں پر وہابی مفتیوں کے فتوؤں کے مطابق عمل کیا جاتا ہے۔ ادھر حکومت آل سعود نے تقریبا ڈھائی سال پہلے دہشتگردی سے مقابلے کا نام نہاد قانون منظور کرکے دہشتگردی سے مقابلے کے بہانے نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ کیا بلکہ وہ سعودی عرب کے عوام کے خلاف اپنی تشدد آمیز پالیسیوں کو بھی قانونی رنگ دینا چاہتی ہے۔ سعودی عرب میں آل سعود کی تشدد آمیز پالیسیوں پر رائے عامہ کا احتجاج نیز آل سعود کی جانب سے علاقے میں مداخلتیں اور جنگیں چھیڑنے سے اس بات کو کی نشاندہی ہوتی ہے کہ آل سعود کی تشدد آمیز پالیسیاں ناکام ہوچکی ہیں۔ آل سعود کے حکمرانوں کی جانب سے شہریوں کے حقوق کی وسیع پیمانے پر پامالی اور ملک کا انتظام چلانے میں آل سعود کی جانب سے جمہوری اصولوں کی بھرپور خلاف ورزی اس بات کا سبب بنی ہے کہ رائے عامہ سعودی عرب کوسیاسی اور سماجی لحاظ سے ایک پسماندہ ملک سمجھے جس کا انتظام قرون وسطی کے قوانین سے چلایا جاتا ہے۔ ان تمام مسائل کے باوجود اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے سفیر فیصل بن حسن طراد کو امریکہ اور برطانیہ جیسے مغربی ملکوں کی حمایت سے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں ایک اعلی عھدہ دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں سعودی عرب کو رکن بنانا اور مختلف ذمہ داریاں دینا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اقوام متحدہ کی اس کونسل میں بھرپور طرح سے سیاسی محرکات کی بنیاد پر کام ہورہا ہے اور قانونی معیارات میں تحریف کی جارہی ہے۔ ان مسائل سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ انسانی حقوق کی کونسل میں انسانی حقوق کے سلسلے میں پہلے سے زیادہ سیاسی محرکات کی بنیاد پر کام ہورہا ہے۔ بلاشبہ ایسی کمزور پالیسیوں کا نتیجہ انسانی حقوق اور عالمی قوانین کو پامال کرنے میں آل سعود کے حکام کی گستاخی کے علاوہ اور کچھ نہیں نکلا ہے۔