8 سائنس فکشن خیالات جو زمین پر ڈھا سکتے ہیں قیامت دوسرا حصہ
عالمی آتشی بگولا یا شدید آتشزدگی
دیز فائنل آورز نامی ایک آسٹریلین فلم میں دکھایا گیا تھا کہ ایک دمدار ستارہ شمالی بحر اوقیانوس میں زمین سے ٹکراتا ہے جس کے نتیجے میں دنیا میں زمینی سطح سے تہہ تک یعنی اوپر سے نیچے تک شدید آگ بھڑک اٹھتی ہے جس کے دوران زمین کے رہائشی اپنی زندگی کے آخری گھنٹے جشن مناتے ہوئے گزارتے ہیں کیونکہ آگ کی دیوار ان کی جانب بڑھ رہی ہوتی ہے۔
ایسا کئی فلموں میں دکھایا جاتا رہا ہے اور ایک امریکی یونیورسٹی کی تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایسا زمین پر پہلے بھی ہوچکا ہے۔
کولوراڈو بولڈر یونیورسٹی کی ٹیم نے تحقیق کے بعد اس بات کو کہا تھا کہ دمدار ستارے یا شہاب ثاقب زمین سے ٹکرایا جس سے آگ کی دیوار پیدا ہوئی جس سے درجہ حرارت 1500 ڈگری تک پہنچ گیا اور یہ دیوار ہوا کے ساتھ آگے بڑھتی چلی گئی اور دنیا بھر میں اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو بارہ گھنٹے کے اندر جلا کر خاک کردیا اور ایسا ہزاروں لاکھوں سال قبل ڈائنوسارز کے عہد میں ہوا۔
تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ زمین پر کسی اتنے بڑے سیارچے کے ٹکرانے کا خطرہ 2880 تک نہیں۔
عالمگیر سیلاب
اسٹیفن بیکسٹر کے 2008 میں شائع ہونے والے ناول فلڈ میں ایک ایسے سیلاب کی داستان بیان کی گئی تھی جس میں پوری دنیا غرق ہوجاتی ہے، شروع میں ہر ایک کا خیال تھا کہ ایسا موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہورہا ہے مگر ایسا بہت تیزی سے ہونے لگا اور پانی کی سطح بہت بلند ہوگئی تو اندازہ ہوا کہ اس سیلاب کی وجہ کچھ اور ہے اور وہ تھی سمندری تہہ، جس میں زلزلوں سے زمین کے اندر چھپے ذخائر کا منہ کھل گیا اور بہت زیادہ پانی دنیا کو غرق کرنے لگا۔
دنیا کا سیلاب میں غرق ہونا تو حضرت نوحؑ کے واقعے سے ثابت ہے تاہم وہ تو عذاب الہیٰ تھا تاہم اس ناول میں جو وجہ بیان کی گئی ہے وہ بھی کوئی افسانوی خیال نہیں۔
درحقیقت زمین کی سطح میں ساڑھے چھ سو کلو میٹر گہرائی میں پانی کا اتنا بڑا ذخیرہ پوشیدہ ہے جتنا سات سمندروں میں بھی نہیں جو کہ ایک معدنیات کے حصار میں بند ہے جو کسی زلزلے کے نتیجے میں کھل جائے تو کیا نہیں ہوسکتا؟
سائنسدانوں کے اندازوں کے مطابق اس جگہ اتنا پانی ہے کہ دنیا کے سمندروں کو تین بار بھرا جاسکتا ہے تو تباہی کا اندازہ خود لگالیں۔
دماغی لہروں میں انتشار
اسٹیفن کنگ کے 2006 کے ناول سیل میں دکھایا گیا تھا کہ دنیا کا ہر موبائل فون ایک ہی وقت بجنا شروع ہوجاتا ہے اگر لوگ فون کو اٹھاتے تو ان کی دماغی لہروں میں انتشار پیدا ہوتا اور زومبیز (زندہ مردوں) میں تبدیل ہوجاتے اور ایک دوسرے پر حملہ کرکے قتل کردیتے۔ پھر سب لوگ فون اٹھا کر زومبیز بن جاتے ہیں جن ایک نامعلوم فرد کنٹرول کرنے لگتا ہے۔
تو کیا ایسا حقیقی دنیا میں بھی ممکن ہے کہ ایک موبائل ہماری دماغی لہروں کو منتشر کرسکے؟ تو کچھ سائنسی تحقیقی رپورٹس کے مطابق ایسا پہلے ہی ہو رہا ہے ایک آسٹریلین یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق ایک فون کا سگنل ٹھیک فریکوئنسی پر لوگوں کے رویے پر اثرانداز ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر یہ سر کے قریب رکھا ہو تو یہ لوگوں کے لیے سونا مشکل بنادیتا ہے اور ابھی تو سائنسدانوں نے موبائل فونز کے دماغ پر اثرات کے بارے میں جاننا شروع کیا ہے۔
اگر موبائل کی فریکوئنسی دماغ کے جذبات اور دھڑکن کنٹرول کرنے والے نظام پر اثرانداز ہوئی تو جسم میں ایڈرینالین نامی ہارمون کی مقدار بڑھنے سے غصہ بڑھنے لگے گا اور انسان کے اندر خودکشی کا رجحان پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
جاری ہے ۔۔۔۔