• صارفین کی تعداد :
  • 517
  • 3/28/2016
  • تاريخ :

بلوچستان اور اسٹیج ڈراما کا ساتھ حصہ اول

بلوچستان اور اسٹیج ڈراما کا ساتھ  حصہ اول


پاکستان میں ہر سال سینکڑوں کتابیں شائع ہوتی ہیں، جن میں سے کئی کتابوں کا تذکرہ بھی سننے کو نہیں ملتا۔ ان گمنام کتابوں میں سے بہت ساری کتابیں اعلیٰ اور معیاری تحقیق کا نمونہ ہوتی ہیں۔ ایسی ہی ایک کتاب کا نام ٝبلوچستان میں اسٹیج ڈرامے کی روایت ٜ ہے، جس کو نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد نے 2011 میں شائع کیا۔ اس کے مصنف فضل الرحمٰن قاضی ہیں۔ یہ کتاب بلوچستان میں اسٹیج کی روایتی تاریخ کا بیان ہے۔
مصنف نے اس کتاب کو لکھنے کے لیے سب سے زیادہ استفادہ جس کتاب سے کیا، اس کا نام ٝبلوچستان میں اردو ٜ ہے، جس کے مصنف ڈاکٹر انعام الحق کوثر ہیں۔ یہ کتاب 1994 میں مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد نے شائع کی۔ فضل الرحمٰن قاضی نے اپنی کتاب کے پیش لفظ میں اس بات کا اعتراف کیا کہ انہوں نے جب ڈاکٹر انعام الحق کوثر کی کتاب کا مطالعہ کیا، تو اس کا ایک باب ٝڈراما ٜ ان کے لیے خصوصی دلچسپی کا باعث بنا۔ انہوں نے ایک اور اہم کتاب ٝبلوچستان میں اسٹیج ڈراموں کا سفر ٜ سے بھی مدد لی، اس کتاب کے مصنف اے ڈی بلوچ تھے۔
ڈاکٹر انعام الحق کوثر نے اپنی کتاب ٝبلوچستان میں اردو ٜ کے تناظر میں جب ٝڈرامے ٜ کے باب پر کام کیا، تو انہوں نے بلوچستان میں تھیٹر اور اسٹیج ڈرامے کی تاریخ کو اچھی طرح کھنگالا۔ پہلی جنگِ عظیم سے لے کر 1967تک بلوچستان میں اسٹیج ڈرامے کے مختلف ادوار کا تفصیلی جائزہ لیا جبکہ فضل الرحمٰن قاضی نے اپنی اس کتاب ٝبلوچستان میں اسٹیج کی روایت ٜ میں پانچ ابواب میں 2002 تک جائزہ لیا ہے۔
اس کتاب کے مصنف، فضل الرحمٰن قاضی بطور اسٹیج اداکار اور سیکرٹری مجلسِ عامہ، ریلوے ڈرامیٹک کلب (1951 تا 1964) رہے جبکہ کوئٹہ آرٹ اینڈ لٹریری سوسائٹی کے بانی جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ اس کے علاوہ ان کی پہچان مزاح نگار کی حیثیت سے بھی ہے، افسانہ نگاری سے بھی شغف رکھتے اور اپنی سوانح عمری لکھنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ کوئٹہ کے ایک مقامی روزنامے اور ماہانہ جریدے میں ٝکچھ یادیں، کچھ باتیں ٜ کے عنوان سے اسٹیج ڈراموں سے متعلق لکھتے رہے، آگے چل کر یہ تحریریں اس کتاب کی بنیاد ثابت ہوئیں۔
مصنف کے مطابق ٝبلوچستان میں اسٹیج ڈرامے کے سفر کی ابتداء پندرہویں صدی عیسوی کے کسی دور میں قدیم لوک روایتوں یا قصے کہانیوں کو کرداروں کی حرکات و سکنات اور مکالموں کے ذریعے پیش کرنے سے ہوئی۔ ٜ اس کے بعد بیسویں صدی میں ڈرامے کا باقاعدہ آغاز کیسے ہوا، اس کتاب کے متن کے مطابق، ان ادوار میں سے چند اہم برسوں میں پیش کیے جانے والے ڈراموں کو ترتیب وار یہاں لکھ دیا گیا ہے، تاکہ آپ کو بلوچستان میں تھیٹر کے سفر کو سمجھنے میں آسانی رہے۔
1896: کوئٹہ میں پہلی مرتبہ کسی پیشہ ورتھیٹریکل کمپنی کی آمد ہوئی۔
1900 تا 1913: کوئٹہ میں غلام حیدر نے مشہور مصور اور مجسمہ ساز آغا سید عزیز شاہ اور مشہور اداکار طاؤس خان کے ساتھ مل کر ڈراما کلب کی ابتداء کی۔
1924: لورالائی میں مولوی نقشبند بھی ڈراما لکھتے اور اسٹیج کیا کرتے۔
1948: مسئلہ کشمیر کے موضوع پر ریلوے کے چند اصحاب نے لعل دین اور خالصہ ہائی اسکول کے طلباء کے اشتراک سے ڈراما ٝوقت کی پکار ٜ پیش کیا۔
1950: گورنمنٹ کالج کوئٹہ کے اسٹیج پر ٝسرائے کے باہر ٜ ڈراما پیش کیا گیا۔
1951: کوئٹہ کے گورنمنٹ کالج میں ہی ٝمستقبل کے سوداگر ٜ ڈراما اسٹیج ہوا۔
1958: مستونگ میں ریڈیو پاکستان کوئٹہ کی جانب سے ریلوے کلب کوئٹہ کے اداکاروں کا پیش کردہ مزاحیہ خاکہ ٙمشاعرہ ٘ اور ٙتعلیمِ بالغاں ٘ پیش کیا گیا۔
1959: ریلوے اکاؤنٹس اکیڈمی کوئٹہ میں ریڈیو پاکستان کی طرف سے ایک اور مزاحیہ خاکہ پیش کیا گیا۔
1959: ریلوے گروپ کے اراکین کی طرف سے ٝنادرہ ٜ ڈراما ریلوے آفیسرز اینڈرسن انسٹیٹیوٹ کے لان ٹینس سے ملحقہ اسٹیج پر پیش کیا گیا۔
1960: منظور بخاری کا پیش کردہ ڈراما ٝخزانہ ٜ ریلوے کلب کے اسٹیج پر پیش کیا گیا۔
1961: ٝکوئٹہ آرٹ اینڈ لٹریری سرکل ٜ کا قیام ہوا اور ٝاوپن ایئر تھیٹر ٜ وجود میں آیا۔
1962: کوئٹہ میں کالج کے ڈرامیٹک کلب نے اس برس تک سترہ سے زیادہ ڈرامے پیش کیے۔
1962: ٝکوئٹہ آرٹ اینڈ لٹریری سرکل ٜ اور ٝپاکستان امریکن کلچرل سینٹر ڈراما گروپ کے اشتراک سے انگریزی کھیل ٝسوری رونگ نمبر ٜ پیش کیا گیا۔
1962: کوئٹہ فیسٹیول میں آرٹس کونسل کے تعاون سے ٝحلقہ ارباب فن ٜ نے بلوچی لوک داستان ٝہانی شاہ مرید ٜ کو بھی اردو زبان میں اسٹیج کیا۔
1963: جشنِ سبی کے سلسلے میں حلقہ ارباب فن کوئٹہ کی طرف سے ایک مزاحیہ کھیل ٝدومسافر ٜ پیش کیا گیا۔
جاری ہے ۔۔۔