شفاعت کے بارے میں کم علمی
وہابی لوگ چونکہ آیاتِ شفاعت ،کفر و ایمان اور شفاعت کرنے والے نیز شفاعت ہونے والے کے شرائط کے بیان کرنے والی آیات پر مہارت نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے انھوں نے بت پرستوں کے عقیدہ کو شفاعت سے ملا دیا اور یہ اس مثال کی طرح ہے: ”چون ندیدند حقیقت رہ افسانہ زدند“ (جب حقیقت تک نہیں پہنچ سکے تو قصہ اور کہانی کی راہ اختیار کرلی۔)
۵۔ وہابیوں کا کہنا یہ بھی ہے کہ عرب کے بت پرست ،خالقیت، مالکیت اور رازقیت کو خداوندعالم سے مخصوص جانتے تھے، لیکن وہ لوگ صرف بتوں کی وساطت اور شفاعت کو ما نتے تھے، یہ بھی ان کی دوسری غلط فہمی ہے، جس کی وجہ بھی قرآنی آیات سے لا علمی ہے، کیونکہ قرآن مجید کی متعدد آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ بعض ان صفات کے بتوں کے لئے بھی قائل تھے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: (6)
”پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو ایمان و عقیدہ کے پورے اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارتے ہیں پھر جب وہ نجات دے کر خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو فوراً شرک اختیار کر لیتے ہیں“۔
(یعنی مشکلات کا حل بھی غیر خدا سے چاہتے تھے)
ان الفاظ سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ کفار و مشرکین عام حالات میں اپنی مشکلوں کا حل بتوں سے چاہتے تھے، اگرچہ سخت حالات میں صرف خدا کے لطف و کرم کے امیدوار ہوتے تھے۔
سورہ فاطر میں پیغمبر اکرم (ص) سے خطاب ہو رہا ہے:
(7)
”آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم لوگوں نے ان شرکاء کو دیکھا ہے جنھیں خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو ذرا مجھے بھی دکھلاو کہ انھوں نے زمین میں کس چیز کو پیدا کیا ہے یا ان کی کوئی شرکت آسمان میں ہے“۔
اگر مشرکین ،صرف خدا وند عالم ہی کو خالق مانتے تھے اور بتوں کو صرف شافع کے عنوان سے ما نتے تھے، تو اس سوال کا کوئی مطلب ہی نہیں ہوتا کیونکہ وہ جواب میں کہہ سکتے تھے کہ ہم ان کو خالق نہیں مانتے، صرف خالق و مخلوق کے درمیان واسطہ مانتے ہیں، کیا اگر کسی کو واسطہ مانا جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے خالق بھی ماننا ضروری ہے؟!
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ بتوں کے خلقت میں شرکت کے قائل تھے، اور پیغمبر اکرم کو حکم دیا گیا کہ ان کے جھوٹ کو ثابت کرنے کے لئے ان سے سوال کریں کہ ان بتوں نے کیا چیز خلق کی ہے؟ ( جاری ہے )
متعلقہ تحریریں:
مولا کا مفہوم امام سے اعلي ہے
غدير خم اور لفظ " مولا "