شفاعت نجات کا سبب
۳۔ شفاعت در اصل نجات کا ایک سبب ہے، جس طرح سے عالم خلقت اور عالم تکوین میں اسباب (جیسے درختوں اور فصلوں کے لئے نور آفتاب اور بارش ) کو موثر ماننا اصل توحید کے منافی نہیں ہے، کیونکہ ان تمام اسباب کی تاثیر اذن الٰہی کی بنا پر ہوتی ہے، در اصل ان تمام کا نام ایک قسم کی شفاعت تکوینی ہے، اسی طرح عالم شریعت میں مغفرت و بخشش اور نجات کے لئے کچھ اسباب پائے جاتے ہیں وہ بھی خدا کی اجازت سے، اور یہ توحید کے منافی ہی نہیں ہے بلکہ توحید پر مزید تاکید کرتے ہیں، اور اس کا نام ”شفاعت تشریعی“ ہے۔
۴۔ بتوں کے بارے میں قرآن کریم نے جس شفاعت کی نفی کی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بت پرست ہر لحاظ سے بے خاصیت موجودات (بتوں) کو بارگاہ خداوندی میں اپنا شفیع قرار دیتے تھے، لہٰذا سورہ یونس ، آیت نمبر۱۸ میں ان کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:
”اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں، جو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ فائدہ اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ خدا کے یہاں ہماری سفارش کرنے والے ہیں“۔
یقینی طور پر انبیاء اور اولیاء اللہ کی شفاعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، یہ آیت بتوں سے مخصوص ہے ، جو کہ بے عقل و شعور پتھر اور دھات ہیں۔
دوسری طرف قرآن کریم اس شفاعت کی مذمت کرتا ہے جس میں شفاعت کرنے والے کے استقلال اور اذن الٰہی کے بغیر اس کی تاثیر کو قبول کیا جائے، اسی وجہ سے قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:
(5)
”اور جن لوگوں نے اس کے علاوہ سرپرست بنائے ہیں یہ کہہ کر کہ ہم ان کی پرستش صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں گے ، اللہ ان کے درمیان تمام اختلافی مسائل میں فیصلہ کر دے گا“۔
اس آیہٴ شریفہ کے مطابق مشرکین اپنے معبودوں کو اپنا ولی اور سرپرست، اپنا حامی اور اپنا محافظ مانتے تھے، اور ان کی پوجاکرتے تھے، اور ان کے یہ دونوں کام غلط تھے، (بتوں کو اپنا ولی سمجھنا اور ان کی عبادت کرنا)
لیکن اگر کوئی شخص اولیاء اللہ ، انبیاء علیہم السلام اور ملائکہ کی عبادت نہ کرے بلکہ ان کا احترام کرے، ان کو بارگاہ خدا میں شفیع قرار دے وہ بھی خدا کے اذن سے، تو یہ مذکورہ آیت ہرگز اس کو شامل نہ ہو گی۔( جاری ہے )
متعلقہ تحریریں:
غدير خم اور لفظ " مولا "
مولا کا مفہوم امام سے اعلي ہے