غیر اللہ سے شفاعت طلب کرنا
حضرت یوسف علیہ السلام کے بیٹے نے آپ علیہ السلام کے پاس آ کر کہا ”یا ابانا استغفر لنا ذنوبنا“ (سورہ یوسف ۔۹۷۔۹۸۔) ۔ بابا جان ہمارے لئے خداوند عالم سے استغفار کی دعا کرو، اور انہوں نے بھی کہا ” سوف استغفر لکم“(۳) عنقرےب میں تمہارے لئے استغفار کروں گا ۔ شفاعت طلب کرنے کے معنی اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہیں کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) یا آئمہ ( علیھم السلام) یا اولیاء الہی یا صلحاء سے درخواست کریں کہ روز قیامت ہمارے لئے دعا و استغفار کریں یا ملائکہ سے درخواست کریں کہ ہمارے لئے طلب مغفرت کریں کیونکہ ملائکہ بھی مومنین کے لئے استغفار کرتے ہیں کیا یہ غیر اللہ کے سامنے جھکنا یا توکل کرنا ہے اس لئے کہ اگر کوئی پیغمبر اسلام یا اولیاء خدا سے حاجت یا شفاعت طلب کرے تو یہ خداوند عالم سے اعراض اور غیر اللہ کی طرف متوجہ ہونا نہیں ہے ، اگر کوئی پیغمبر اسلام سے درخواست کرے کہ ہمارے لئے دعا کریں تو یہ شخص گویا خود اللہ کی طرف متوجہ ہے اور اللہ ہی سے شفاعت طلب کر رہا ہے صرف پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے کہہ رہاہے یا رسول اللہ !آپ ہمارے لئے استغفار و دعا کر دیجئے ۔
م وہابی فرقےکے بانی حمد بن عبد الوہاب (متوفی ۱۲۰۶ئھ) نے اپنی مشہور کتاب ”رسالہ اربع قواعد“ میں بہت سی باتیں تحریر کی ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے:
شرک سے نجات صرف ”چار قواعد“ کے ذریعہ ہی ممکن ہے:
۱۔ جن مشرکین سے پیغمبر اکرم (ص) نے جنگ کی ہے وہ سب خداوندعالم کو خالق، رازق اور اس جہان کا مدبر مانتے تھے جیسا کہ سورہ یونس آیت نمبر ۳۱ میں ارشاد ہوتا ہے:
(1)
”پیغمبر ذرا ان سے پوچھئے کہ تمہیں زمین اور آسمان سے کون رزق دیتا ہے اور کون تمہاری سماعت و بصارت کا مالک ہے اور کون مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے اور کون سارے امور کی تدبیر کرتا ہے تو یہ سب یہی کہیں گے کہ اللہ! تو آپ کہہ دیجئے کہ پھر اس سے کیوں نہیں ڈرتے“۔
اس آیت کی بنا پر وہ لوگ خداوندعالم کی رزّاقیت، خالقیت ، مالکیت اور مدبریت کا عقیدہ رکھتے تھے۔
۲۔ مشرکین کی اصل مشکل یہ تھی کہ وہ کہتے تھے: ہم بتوں کی عبادت اور ان پر توجہ صرف اس وجہ سے کرتے ہیں کہ وہ خدا کے نزدیک ہماری شفاعت کریں اور ان کے ذریعہ ہمیں قرب خدا حاصل ہو جائے، جیسا کہ قرآن مجید میں ا رشاد ہوتا ہے:
(2)
”اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں، جو نہ نقصان پہنچاسکتے ہیں اور نہ فائدہ اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ خدا کے یہاں ہماری سفارش کرنے والے ہیں“۔
۳۔ جو لوگ غیر خدا کی عبادت کیا کرتے تھے ان تمام سے پیغمبر اکرم (ص) نے جنگ کی ہے، چاہے وہ درختوں کی پوجا کرتے ہوں یا پتھروں اور چاند و سورج کی پوجا کرتے ہوں، یا ملائکہ ، انبیاء اور صالحین کی عبادت کرتے ہوں، پیغمبر اکرم (ص) نے ان کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا، (یعنی آنحضرت نے ان سب سے جنگ کی ہے)
۴۔ ہمارے زمانہ کے مشرکین ( یعنی وہابیوں کے علاوہ تمام فرقے) زمانہ جاہلیت کے مشرکین سے بدتر ہیں! کیونکہ وہ سب چین و سکون کے وقت بتوں کی عبادت کیا کرتے تھے لیکن سخت حالات میں صرف خدا کو پکارتے تھے جیسا کہ سورہ عنکبوت کی آیت نمبر ۶۵/ میں بیان ہوا ہے:
(3)(4)
”پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو ایمان و عقیدہ کے پورے اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارتے ہیں پھر جب وہ نجات دے کر خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو فوراً شرک اختیار کرلیتے ہیں“۔( جاری ہے )
متعلقہ تحریریں:
عصمت امام کي گواہي
عصمت امام کا اثبات