انتخاب خلافت کے طریقے پر شیعوں کا نظریہ
شیعہ معتقد تھے کہ اسلامی شریعت جس کا منبع کتاب الہی اور سنت رسول ہے قیام قیامت تک اپنے اعتبار پر باقی ہے اس میں ہر گز کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی۔ (۲۱) اور اسلامی حکومت نفاذ شریعت میں کسی قسم کا عذر اور بہانہ پیش نہیں کر سکتی اس کی صرف اتنی ذمہ داری ہے کہ وہ شوریٰ کے مشورہ سے شریعت کے سائے میں وقت کے تقاضے کے مطابق تصمیم لے۔ لیکن خلافت کے مسئلے میں شیعوں کے خلیفہ وقت کی بیعت نہ کرنے کی وجہ، بیعت لینے والوں کی طرف سے سنت رسول کو نظر انداز کر دینا تھا۔ رسول اسلام کا بستر بیماری پر قلم و دوات طلب کرنا اور کچھ منافقین کی طرف سے توہین رسالت کرنا اور شان رسالت میں گستاخی کر کے آپ کو منفی جواب دینا اور جنازہ رسول کو چھوڑ کر خلافت کی لالچ میں سقیفہ قائم کرنا یہ وہ اسباب تھے جنہیں رسول اسلام(ص) کے جید صحابہ کبھی بھی نظر انداز نہیں کر سکتے تھے اور نہ ہی انہیں فراموشی کے حوالے کر کے بیعت کر سکتے تھے۔ شیعہ کتاب الہی اور سنت رسول دونوں کو ہمطراز سمجھتے تھے لیکن حکومت وقت کے نزدیک سنت رسول کی کوئی اہمیت نہیں تھی حکومتی عہدہ دار اس بات کے قائل تھے کہ کتاب خدا ایک قانونی کتاب ہونے کے حوالے سے اسلامی حکومت قائم کرنے کے لیے کافی ہے سنت رسول کوئی اعتبار نہیں رکھتی، حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے سنت رسول کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اس نظریہ کے پیش نظر صحابہ کی شان میں کئی حدیثیں گڑھ لیں کہ صحابہ مجتہد ہیں اور مجتہد اگر صواب کا فتوی دے تو دو ثواب کماتا ہے اور اگر خطا پر مبنی فتویٰ دے تو ایک ثواب اسے ملتا ہے لہذا صحابہ وقت کے تقاضے کے مطابق تصمیم لے سکتے ہیں جس کا ایک واضح نمونہ خالد بن ولید کا واقعہ ہے خالد بن ولید خلیفہ وقت کے وزراء میں سے تھا جو مالک بن نویرہ کے گھر میں رات کے وقت مہمانی کے عنوان سے داخل ہوا مالک بن نویرہ مسلمانوں کی معروف شخصیات میں سے ایک تھے۔ خالد نے مالک کو دھوکے سے قتل کر دیا اور اس کا سر جدا کر کے چولہے میں جلا دیا اور اس کے بعد اس کی بیوی سے زنا کیا اس شرم ناک واقعہ کے بعد خلیفہ وقت نے اسے سزا دینا تو دور کی بات اسے اس کے مقام سے معزول بھی نہیں کیا اور اس کے گناہ کبیرہ کو اجتہادی خطا کا لقب دے کر اسلامی حد جاری کرنے سے بری قرار دیا (۲۲)! ( تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ایک طرف سنت رسول کی مخالفت کر کے اس کے اعتبار کو ختم کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف اپنے شرمناک اعمال کو شرعی رنگ دینے کے لیے منگھڑت سنت کا ہی استعمال کیا جا رہا ہے اور اسے سنت رسول کی طرف نسبت دے کر صحابہ کے گناہوں کو اجتہاد کی عبا سے چھپایا جا رہا ہے)۔
اس کے علاوہ اسلامی حکومت نے اہلبیت اور اولاد رسول(ص) کو خمس سے محروم کر دیا (۲۳) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی احادیث کو نقل کرنا کلی طور پر ممنوع قرار دے دیا۔ اور اگر کہیں کوئی حدیث نقل کی جاتی یا لکھی جاتی تھی تو ناقل کو سزا اور حدیث کو جلا دیا جاتا تھا۔(۲۴) اور یہ ممنوعیت خلفاء راشدین سے لے کر عمر بن عبد العزیز کے زمانے تک باقی رہی، (۲۵) دوسرے خلیفہ کے دور میں یہ سیاست واضح تر ہو گئی خلیفہ دوم نے شریعت کے اندر تحریف کا کام کھلے عام شروع کر دیا حج تمتع اور متعہ نساء کو حرام، اور ’’ حی علی خیر العمل‘‘ کو اذان میں ممنوع قرار دیا۔ (۲۶) اس کے علاوہ تین طلاق کے طریقے کو بدل دیا۔ (۲۷)
دوسرے خلیفہ کا دور تھا کہ بیت المال لوگوں کے درمیان مساوی طور پر تقسیم نہیں ہوتا تھا (۲۸) جس کی وجہ سے بعد میں مسلمانوں کے درمیان طبقاتی اختلافات ایجاد ہو گئے جو ایک دوسرے کے خون پینے کا باعث بنے۔ انہی کے زمانے میں معاویہ نے شام میں قیصر و کسریٰ کی طرح حکومت کی اور خلیفہ نے اسے کسرائے عرب کا نام دے دیا لیکن اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔
خلیفہ دوم سن ۲۳ ہجری کو ایک ایرانی غلام کے ہاتھوں مارے گیے اور چھ آدمیوں پر مشتمل شوریٰ میں اکثریت کے رائے سے حضرت عثمان کو خلیفہ سوم منتخب کیا گیا۔ تیسرے خلیفہ نے حکومت کی لگام اپنے ہاتھ میں لیتے ہی اپنے تمام رشتہ داروں اور بنی امیہ کے سفاک ترین افراد کو دیگر تمام مسلمانوں پر مسلط کر دیا؛ حجاز، عراق، مصر اور دیگر اسلامی بلاد میں حکومت کی باگ ڈور سب بنی امیہ کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ (۲۹) بنی امیہ نے اسلامی قوانین کو ایک گوشے میں رکھ کر اپنی قانون نافذ کر دی، ظلم و ستم، قتل و غارت اور فسق و فجور کا سلسلہ شروع کر دیا۔ خلیفہ کے پاس ان کے وزیروں کی شکایتوں کی بوچھاڑ ہونے لگی، خلیفہ مسلمانوں کی باتوں اور شریعت الہی کو نظر انداز کر سکتے تھے لیکن اپنی کنیزوں کی باتوں اور خاص کر مروان بن حکم کے مشوروں کو کیسے درکنار کر سکتے تھے؟۔(۳۰) لوگوں کی شکایتوں پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا تھا بلکہ بعض اوقات انہیں شکایت کے نتیجہ میں الٹی ڈانٹ جھپٹ کھانا پڑتی تھی۔ (۳۱) انہی کارناموں کا ثمرہ انہیں یہ ملا کہ ۳۵ ہجری کو لوگوں نے ان پر شورش برپا کی اور چند دن محاصرہ کرنے کے بعد انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔
خلیفہ سوم نے اپنے عہد خلافت میں حکومت شام کو معاویہ سے رشتہ داری کی بنا پر پہلے سے زیادہ قوی کیا در حقیقت حکومت کا مرکز شام ہو گیا اور مدینہ صرف تشریفاتی حیثیت کا حامل ہو گیا۔ (۳۲) خلیفہ اول کی خلافت اکثریت صحابہ کی رائے سے منتخب ہوئی، خلیفہ دوم پہلے کی وصیت سے اور خلیفہ سوم چھے افراد پر مشتمل شوریٰ کے ذریعے منتخب ہوئے جس کے آئین نامے کو دوسرے خلیفہ نے پہلے سے مرتب کر رکھا تھا۔ اور کلی طور پر تینوں خلفاء کی ۲۵ سالہ خلافت کے دور میں یہ سیاست رہی کہ اسلامی قوانین اجتہاد اور وقتی مصلحت کے مطابق سماج میں نافذ ہوں اور اسلامی سماج میں یہ چیز رائج کر دی گئی کہ قرآن بغیر تفسیر اور دقت کے پڑھا جائے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی کوئی حدیث نہ کاغذ پر لکھی جائے اور نہ کسی کی زبان پر جاری ہو۔
صرف قرآن کا کتابت کرنا جائز تھا حدیث کی کتابت سختی سے منع تھی(۳۳) جنگ یمامہ کے بعد جو ہجرت کے بارہویں سال وقوع پذیر ہوئی اور جس میں بہت سارے قاری قرآن قتل ہو گئے اس جنگ کے بعد عمر بن خطاب نے آیات قرآن کی جمع آوری کا حکم دیا کہ کچھ لوگ مصحف کو جمع کرنے کی ذمہ داری اٹھائیں وہ اپنے دستور میں یہ کہتے ہیں کہ کوئی اور ایسی جنگ واقع ہو گئی تو یہ باقی ماندہ قاری بھی ختم ہو جائیں گے تو قرآن کلی طور پر ہمارے درمیان سے ختم ہو جائے گا لہذا ضروری ہے کہ آیات قرآنی کی جمع آوری کی جائے اور اسے مصحف کی شکل دی جائے (۳۴)۔
قرآن کریم کے سلسلے میں یہ تصمیم لیا گیا حالانکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی حدیث کہ ’’ بہت سارے ایسے قرآن پڑھنے والے ہیں جن پر خود قرآن لعنت کرتا ہے‘‘ فراموش کر دی گئی اس لیے کہ قرآن کی جمع آوری میں نقل بمعنی، زیادہ، کمی اور بھول چوک کا امکان پایا جاتا تھا اس لیے کہ کوئی بھی انکے درمیان معصوم تو تھا نہیں۔ قرآن کی جمع آوری کا سلسلہ شروع ہوا لیکن احادیث کو نقل کرنا جرم تھا جو حدیث لکھی جاتی تھی اسے اسے جلا دیا جاتا تھا،یہاں تک کہ کچھ ہی عرصہ کے بعد اسلام کے ضروریات جیسے نماز و روزے کے مسائل میں بھی اختلاف پیدا ہو گیا اور قرآن کریم اور احادیث رسول میں علم کو حاصل کرنے اور اسے وسعت دینے کے بارے میں جتنی تاکید اور تشویق ہوئی تھی سب بے اثر ثابت ہوئی۔ اور مسلمان صرف جنگوں اور پے در پے فتوحات اور غنائم جمع کرنے میں مشغول ہو گئے۔ انہیں علم و معرفت حاصل کرنے اور اہلبیت رسول(ع) کہ جن میں کی عالم ترین شخصیت حضرت علی علیہ السلام ان کے درمیان موجود تھے، سے کچھ سیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی حتی قرآن کریم کی جمع آوری میں بھی ان سے کوئی مشورہ یا ان کی مشارکت حاصل نہیں کی جبکہ آپ رسول اسلام(ص) کی رحلت کے فورا بعد کچھ عرصہ خانہ نشین ہو کر قرآن کریم کو نزول کے مطابق مرتب کر چکے تھے(۳۵)
یہ مسائل اور اس طرح کے کئی دیگر مسائل اس بات کا سبب بنے کہ علی علیہ السلام کے پیروکاروں کو اپنے عقیدہ میں زیادہ پکا کریں اور ان امور اور وقائع کی نسبت انہیں زیادہ ہوشیار کریں۔ علی علیہ السلام بھی جو کھلے عام لوگوں کی تربیت کرنے سے قاصر تھے خصوصی طور پر کچھ لوگوں کی تربیت میں مصروف رہے۔
اس ۲۵ سالہ دور خلافت میں علی علیہ السلام کے چار عظیم اور صمیمی ساتھیوں میں سے تین (سلمان فارسی، ابوذر غفاری اور مقداد) دنیا سے چل بسے لیکن کثیر تعداد میں دیگر صحابہ اور تابعین حجاز، یمن، عراق اور دوسری جگہوں سے علی علیہ السلام کے گرویدہ ہو گئے۔ اور انہوں نے آپ کی سیرت اختیار کر لی، نتیجہ میں خلیفہ سوم کے قتل کے بعد ہر طرف سے لوگ آپ کے در پر ٹوٹ پڑے اور آپ کو بیعت لینے پر مجبور کر دیا اور خلافت کی لگام آپ کے ہاتھوں میں لاکر رکھ دی۔ ( جاری ہے )
متعلقہ تحریریں:
کلمه مولا کے معني
ولايت اور ہجرت