ماں باپ کا احترام
اسلام نے والدین کے احترام پر بہت زور دیا ہے اور بوڑھے والدین کی خدمت کو اعلی مقام عطا کیا ہے ۔ ارشاد رسول کریمﷺ ہے:’’بڑا بدبخت ہے وہ شخص جو اپنے والدین کا بڑھاپا پائے، پھر انہیں خوش کرکے ان کی دعائوں سے اپنے آپ کو جنت کا مستحق نہ بنا لے۔‘‘
اسلام اولاد کو حکم دیتا ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نرمی و تواضع، خاکساری و انکساری سے پیش آئے، ان کے ساتھ احترام و محبت کا بر تاو کرے۔ اگر انہی کسی بات پر غصہ آ جائے تو اسے برداشت کی عادت ڈالیں۔
والدین کے حق میں دعائے رحمت کرتے رہنے سے خود اپنے دل میں بھی ان کے لیے محبت و کشش کے جذبات بیدار ہو جائیں گے۔
قرآن کریم کی طرح احادیث نبوی ﷺ میں بھی حقوق والدین کی ادائیگی پر زور دیا گیا ہے۔
نبی پاکﷺ کا ارشاد ہے:’’پروردگار کی خوش نودی ماں باپ کی خوش نودی میں ہے اور پروردگار کی ناراضگی ماں باپ کی ناراضگی میں ہے۔‘‘ (ترمذی)
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جب اولاد اپنے والدین کی طرف نظرِ رحمت کرے تو اﷲ تعالیٰ اس کے لیے ہر نظر کے بدلے حج مبرور کا ثواب لکھ دیتا ہے۔‘‘
عرض کیا گیا:’’چاہے دن میں سو مرتبہ نظر کرے؟‘‘
رسول پاکؐ نے ارشاد فرمایا:’’ہاں۔‘‘ (بیہقی )
والدین کے بارے میں اﷲ کے رسولﷺ نے اولاد کو مخاطب کرکے فرمایا:’’وہ دونوں تیری جنت و دوزخ ہیں۔‘‘ یعنی ان کو راضی رکھنے سے جنت ملے گی اور ناراض رکھنے سے دوزخ کے مستحق ہو گے ۔
قرآن کریم و احادیث مبارکہ نے والدین کی خدمت گزاری و اطاعت شعاری کو جو اہمیت دی ہے، اس کی روشنی میں ہر مسلمان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے والدین کا عمر کے ہر حصے میں عموماً اور ان کی ضعیفی میں خصوصاً مطیع و فرماں بردار رہے۔ ان کی خدمت کو موجب نجات جانے۔ ان کے جملہ حقوق سے انحراف نہ کرے۔ کبھی ان کی ضرورتوں سے بے نیازی نہ برتے، بلکہ خود اپنے آپ کو اور اپنے متعلقین کو بھی ان کے اکرام و احترام کا پابند بنائے۔ خصوصاً بڑھاپے میں اسی طرح ان کی خدمت بجالائے اور دوسروں کو بتائے جس طرح اس کے بچپن میں وہ اس کی پرورش اور ناز برداری کرتے رہے۔
ماں باپ سے نیکی بہت سارے گناہوں کا کفارہ ہے۔ چنانچہ روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ ، ایسا کوئی بُرا کام باقی نہیں بچا جس کا میں مرتکب نہ ہوا ہوں۔ کیا میرے لیے توبہ ہے؟ آنحضرت نے فرمایا، جاو، باپ کے ساتھ نیکی کرو تاکہ تمہارے گناہوں کا کفارہ ہو ۔ جب وہ نکل گیا تو آپ نے فرمایا اگر اس کی ماں زندہ ہوتی تو اس کے ساتھ نیکی کرنا زیادہ بہتر ہوتا۔( جاری ہے )
متعلقہ تحریریں:
گھريلو لڑائي جھگڑے سے پرہيز
بچوں کي مشکلات کو کيسے کم کريں ؟