اسلام میں بیوی کا درجہ
حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا مکہ کی بہت بڑی تاجرہ تھیں۔ نیک سیرت اور بہترین نسب و شرف کی مالکہ، مگر جب ایک مثالی بیوی کے روپ میں کریم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقد زوجیت میں آئیں تو اپنا سارا مال و دولت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں دین اسلام کی خدمت کے لئے وقف کر دیا، وہ اعلانِ نبوت سے پہلے ہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و بلند مرتبہ کی قائل ہو گئی تھیں، رضی اﷲ عنہا کو نہ صرف زوجیّت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عظیم شرف حاصل ہوا، بلکہ اُمّ المومنین ہونے کے ساتھ ساتھ خیر النساء کے عظیم لقب سے بھی سرفراز ہوئیں، اور یہ عظیم شرف نصیب ہوا کہ عورتوں میں آپ رضی اﷲ عنہا سب سے پہلے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ رضی اﷲ عنہا سے مشورہ فرمایا کرتے تھے، گویا ایک عظیم بیوی کا کردار اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ دین کی جدوجہد کرنے والے اپنے شوہروں کا ساتھ دیں۔ یہاں تک کہ وقت آنے پر اپنا مال و دولت بھی دین کی سربلندی کے لئے خرچ کر دیں۔ تب اﷲ کی طرف سے خوشخبریاں ملتی ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا کویہ مقام نصیب ہوا کہ آپ رضی اﷲ عنہا اسلام کی پہلی وزیرہ کہلائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کی بشارت دی، آپ کو الطاہرۃ، سیدۃ نساء قریش، سیدۃ نساء العالمین، ام البتول، ام الزہراء، اور امّ سیدۃ نساء اہل الجنۃ جیسے القابات سے نوازا گیا۔
اسلام نے عورت کے بیوی ھونے کی حیثیت سے بھی بڑے حقوق بیان کۓ ہیں اور شوہر پر انکی آدائییگی کو ضروری قرار دیا ہے جن میں سے ہی اس کے ساتھ اچھے طریق ، حسن سلوک ، نرمی اور عزت و احترام سے پیش آنا بھی ہے ۔ چنانچہ صحیح بخاری و مسلم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :
{ خبردار عورتوں سے حسن سلوک اور اچھا برتاو کرو ۔ وہ ( اللہ کی طرف سے ) تمھارے زیردست کنیزیں ہیں } ( متفق علیہ )
زیادہ کامل الایمان وہ ہے جو سب سے زیادہ حسن اخلاق والا ہے اور تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھر کی عورتوں کے لۓ اچھا ہے ۔ } ( ابوداود ، ترمذی ، مسند احمد ) ( جاری ہے )
متعلقہ تحریریں:
اسلامي بيداري کي تحريک ميں خواتين کا کردار
اپنے بچوں کو يہ ضرور سکھائيں