افغانستان کے لیۓ مذاکراتی عمل
خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پچھلے سال کی طرح آئندہ سال بھی طالبان بڑے حملے کریں گے جس کے لیۓ افغان عوام کو تیار رہنے کی ضرورت ہے ۔ افغان امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ آئندہ موسم بہار کے شروع ہوتے ہی طالبان دور دراز علاقوں میں اپنا اثرو رسوخ مزید بڑھانے کے ساتھ ملک کے مزید علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے ۔ حکومتی اور اصلاحات کے امور میں افغان صدر کے خصوصی نمائندے کی دوسری تشویش پاکستان کے موقف سے متعلق ہے۔ افغانستان کے بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ چار فریقی مذاکرات افغانستان کے تعلق سے پاکستان کا ایک طرح کا کھیل ہے تاکہ وہ اپنے اوپر سے علاقائی اور عالمی دباو کم کرسکے کیونکہ ان حلقوں نے پاکستان سے یہ درخواست کی ہے کہ افغانستان کے امن مذاکرات از سرنو شروع کئے جائیں۔البتہ اسلام آباد جب تک اپنے مطالبات نہیں منوا لیتا منجملہ جب تک فرضی ڈیوڑینڈ لائین کو افغانستان اور پاکستان کے درمیان عالمی سطح پر باضابطہ طور پر سرحد تسلیم نہیں کر لیا جاتا وہ افغانستان میں قیام امن کے لئے کوئی اقدام نہیں کرے گا۔ یہ بدگمانی اس بات کا سبب بنی ہے کہ افغانستان میں قیام امن کی ان کوششوں کی مخالفت بڑھنے لگی ہے جن کے تحت پاکستان افغانستان سے مراعات حاصل کر سکے۔ زمانہ جہاد کے کمانڈروں سے احمد ضیا مسعود کی درخواست کہ وہ طالبان کے مقابلے کے لئے آمادہ رہیں دراصل پاکستانی حکومت کو ایک طرح سے پیغام دینا اور وارننگ ہے کہ اسلام آباد طالبان کے ہتھکنڈے کے سہارے افغان حکومت سے مراعات حاصل نہیں کر سکتا۔ جہادی ہمیشہ طالبان کے مقابل سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے ہیں اور اب بھی حکومت کابل کی نظرمیں جب بھی ضرورت ہو زمانہ جہاد کے کمانڈر اپنے جوانوں کو اکٹھا کرکے فوج کے ہمراہ طالبان اور پاکستان کی توسیع پسندی کا بھرپور مقابلہ کریں گے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ امن مذاکرات کے نتائج سے احمد ضیا مسعود کی مایوسی اس سلسلے میں حکومت کابل میں اختلاف نظر کی نشانی نہیں ہے بلکہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ حکومت کابل کے حکام خواہ کسی بھی دھڑے سے تعلق رکھتے ہوں پاکستان اور طالبان کو مراعات دینے کے حق میں نہیں ہیں بلکہ استقامت کرکے اپنے قومی اقتدار اعلی اور آزادی کاتحفظ کرنا چاہتے ہیں۔
متعلقہ تحریریں :
پاکستان، حکومت اور طالبان مذاکرات، وقت سے پہلے نا کام
امريکہ کا مذاکراتي عمل پر ڈرون حملہ