گناہوں سے دوری اختیار کریں
اس بات کا ہمیشہ خیال رکھیں کہ خوف و رجا کے دو چراغوں کو ہمیشہ اپنے وجود میں روشن رکھیں ۔
امام باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ " کوئی بھی مومن بندہ ایسا نہیں ہے کہ جس کے ضمیر میں دو نور روشن نہ ہوں۔ ماضی میں اس نے جو کچھ کیا اس کے متعلق " نور خوف " اور خدا کی رحمت و فضل کے متعلق " نور امید " ۔ [وسائل الشیعه، ج 2، ص 488]
اس لیۓ ہمیشہ خدا سے رحمت کی امید رکھنی چاہیۓ ۔ اگر دل پر خوف کا غلبہ ہو تو اس سے ناامیدی پیدا ہوتی ہے اور ناامیدی گناہ ہے جبکہ اگر امید کا غلبہ ہو توانسان میں جرآت پیدا ہوتی ہے ۔ انسان کو ہمیشہ کوشش کرنی چاہیۓ کہ وہ گناہ کا راستہ ترک کرکے نیکی کے راستے پر آۓ اور توبہ کرتے ہوۓ عمل صالح انجام دے ۔
اگر کوئی حرام مال کھانے کا عادی بن جاۓ تو وہ بڑی آسانی کے ساتھ گناہ کے راستے پر چل نکلتا ہے اور بار بار گناہ کا مرتکب ہوتا رہتا ہے ۔
امید کو گناہ سے پشیمان ہونے کے لیۓ بہت اہمیت دی جاتی ہے اور اسے گناہ سے توبہ کرنے اور اس کا ازالہ کرنے کے لیۓ ایک آسان راستہ تعریف کیا گیا ہے ۔ ضروری یہ ہے کہ اس راستے پر رکنا نہیں چاہیۓ ۔ خدا نے امید کو ایک پل کی طرح انسان کے سامنے رکھا ہے تاکہ انسان اس پل کوعبور کرتے ہوۓ غلط راستے کو ترک کرکے صحیح راستے پر گامزن ہو اور منزل پر پہنچنے کے لیۓ کوشش کرے ۔
جان لو کہ عالم محضر خدا ہے
انسان کو اپنے ذہن میں یہ بات واضح کر لینی چاہیۓ کہ خدا اس کے ہر کام کو دیکھ رہا ہے ۔ اس بات پر پوری طرح توجہ کرنے کے بعد انسان گناہ سے باز رہتا ہے ۔ یہ تصور کر لیں کہ ہمارے ارد گرد ہر جگہ دوربینیں لگی ہوئی ہیں اور ہمارے ہر غلط کام کا ہم سے حساب کتاب ہو گا ۔ اس دنیا میں انسان ایسے حالات میں بے عزّت ہونے سے ڈرتا ہے اور ایسے کاموں سے پرہیز کرتا ہے ۔ خدا ہمارے عیبوں پر پردہ ڈالنے والا ہے ۔ ( جاری ہے )
متعلقہ تحریریں:
سفر حج کے ليۓ تياري
عقل خدا کي لازوال نعمت