توہين آميز خاکے اور سازشيں
فرانس کے ايوان زيريں نے جولائي 2010ء ميں حجاب پر پابندي کے بل کي منظوري دي تھي، جس کے بعد اپريل 2011ء ميں پارليمنٹ کے منظور کردہ قانون کے تحت مسلم خواتين کے مکمل حجاب پر پابندي عائد کر دي گئي تھي- تاہم دلچسپ امر يہ ہے کہ جس معاشرے ميں پردے کو معاشرتي تعلقات ميں رکاوٹ قرار دے کر ہدف تنقيد بنايا جا رہا ہے، وہاں کي خواتين ميں اسلام اور حجاب کي مقبوليت بڑھتي جا رہي ہے- فرانس يورپ کا ايسا ملک ہے کہ جہاں مسلمانوں کي تعداد 60 لاکھ سے زائد ہے- ليکن چارلي ايبڈو اخبار کے دفتر پر ہونے والے حملے کے بعد اس ملک کے مسلمانوں کے خلاف سخت پروپيگنڈہ کيا جا رہا ہے جبکہ فرانس کي مسلم برادري نے پير کے روز اعلان کيا کہ پيرس ميں گذشتہ ہفتے ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد سے اب تک اس ملک کے اسلامي مراکز اور مسلمانوں کے خلاف پچاس بار سے زائد حملے ہوئے ہيں- فرانسيسي اخبار لوفيگارو کي ويب سائٹ کي رپورٹ کے مطابق فرانس کے مسلمانوں کي مرکزي کونسل کے ايک عہديدار عبداللہ زکري نے کہا کہ 21 مرتبہ، مسلمانوں کي عمارتوں پر فائرنگ اور بعض عمارتوں پر دستي بموں کے ذريعے حملے کئے گئے ہيں- حالانکہ فرانس کے وزير خارجہ لوران فابيوس نے سلفي تکفيري دہشت گردوں کو بےدين قرارديتے ہوئے کہا ہے کہ سلفي تکفيري دہشت گردوں کا اسلام سے کوئي تعلق نہيں ہے، دہشت گرد بے دين ہيں- فرانسيسي وزير خارجہ نے کہا کہ سلفي وہابي دہشت گرد اپنے اقدامات صرف اسلام کے نام پر انجام ديتے ہيں ان کا اسلام سے کوئي تعلق نہيں ہے- انھوں نے کہا کہ دہشت گردوں کا دين صرف دہشت گردي اور بربريت ہے- دہشت گردوں کا دين، اسلام نہيں ہے- ليکن اس قسم کے بيانات کے باوجود اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپيگنڈے کئے جا رہے ہيں جس سے يوں دکھائي ديتا ہے کہ امريکہ نے نائن اليون کے واقعہ کو جس طرح بہانہ بنا کر اسے مسلمان ملکوں اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کيا اور افغانستان پر حملہ کيا اسي طرح اب فرانس کے حاليہ واقعہ کو بہانہ بنا کر اسے مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کي کوشش کي جا رہي ہے- سياسي مبصرين کا کہنا ہے کہ اگر امريکہ اور يورپي ممالک دہشتگردوں کو تربيت نہ ديتے اور اپنے خاص مفادات کي خاطر انھيں استعال نہ کرتے اور دوسرے ممالک کے داخلي امور ميں مداخلت نہ کرتے تو آج اس قسم کے واقعات رونما نہ ہوتے- آج مغربي حکومتوں کوجنھوں نے شامي حکومت کے مخالف دہشتگردوں کو مسلح کئے جانے کي حمايت کي تھي اس وقت ان دہشتگردوں کے ساتھ اپنے شہريوں کے مل جانے اور ملک واپسي پر دہشتگرادانہ اقدامات کا سامنا ہے اور ان کي اس تشويش کو دہشتگرد گروہ القاعدہ نے يہ کہہ کر اور بڑھا ديا ہے کہ گزشتہ ہفتے توہين آميز خاکے شائع کرنے والے فرانسيسي جريدے چارلي ايبڈو پر حملہ ہمارے کارکنوں نے کيا تھا-
سياسي مبصرين کے مطابق اگر امريکہ القاعدہ کي حمايت نہ کرتا تو آج دنيا کي يہ حالت نہ ہوتي اور لوگ پرسکون زندگي گذار رہے ہوتے- اسي لئےاسلامي جمہوريہ ايران کے صدر جناب حسن روحاني کے بقول جو بھي بےگناہ افراد کے قتل عام ميں ملوث ہيں اور جہاد، اور دين اسلام کے نام پر اپنے ان تشدد آميز اور انتہا پسندانہ اقدامات کا جواز پيش کرتے ہيں وہ چاہتے يا نہ چاہتے ہوئے بھي اسلامو فوبيا اور اسلام مخالف راستے پر قدم رکھ رہے ہيں- فرانس ميں ان چند دنوں ميں ہونے والے واقعات کا جائزہ لينے سے پتہ چلتا ہےکہ بہت سے ايسے عوامل ہيں جو ان واقعات کا سبب بنے ہيں جو زنجير کي کڑيوں کي طرح ايک دوسرے سے جڑے ہوئے ہيں-
متعلقہ تحریریں:
چارلي ايبڈو ،جاہليت کا عکاسي
رہبر معظم کا يورپ اور امريکہ کے تمام جوانوں کے نام پيغام