پاکستان ميں مذھبي اقليتي برادري پر ظلم
حاليہ دنوں ميں ضلع قصور کے علاقے کوٹ رادھا کشن ميں مسيحي برادري کے ايک جوڑے کو زندہ جلاۓ جانے کا ايک نہايت ہي بھيانک واقعہ پيش آيا جس سے پاکستاني معاشرے پر بہت انگلياں اٹھيں - اسلام امن و سلامتي کا دين ہے جو اپنے پيروکاروں کو برداشت اور رواداري کا درس ديتا ہے اور اسلامي حکومت کے زير اثر علاقوں ميں غير مسلم اقليت کو مکمل مذھبي آزادي کي ترغيب ديتا ہے مگر اس کے باوجود متعدد بار پاکستان ميں مذھبي اقليتي برادري کے ساتھ بدسلوکي يا ظلم کے ايسے واقعات سامنے آتے رہے ہيں جو ايک اسلامي مملکت کے ليۓ باعث شرم ہيں -
يہ وحشيانہ، انسانيت سوز اور کربناک خبرپوري دنيا ميں جنگل کي آگ طرح پھيل گئي اور دل و دماغ پر بجلي بن کر گري کہ کوٹ رادھا کشن ميں مسيحي نوجوان جوڑے شہزاد اور اسکي بيوي شمع کو مشتعل ہجوم نے توہين رسالت کا مبينہ الزام ميں زندہ جلا ديا-ايسے اندوہناک واقعات کا رونما ہونا اب پاکستان ميں معمول بن گيا ہے -جہالت کے اندھيروں نے بندوں کي عقل پرپردے ڈال ديئے ہيں اوروہ بنا سوچے سمجھے جنون وجذبات کي رو ميں بہہ کر قانون کو اپنے ہاتھوں ميں لے ليتے ہيں -خود ہي اپني عدالت لگا ليتے ہيں اور خود ہي فيصلے بھي کرديتے ہيں- انسانوں کو کيڑے مکوڑوں کي طرح کچل ديتے ہيں - توہين رسالت کے جھوٹے الزام ميں گرفتار کروا کر بيگناہوں کو پوليس کي حراست ميںدے ديتے ہيں اور کبھي حوالات کے اندر ہي گلے ميں پھندہ ڈال خود کشي کا ڈرامہ رچا ديتے ہيں- کبھي کلہاڑياں مار مار کرتو کبھي اينٹيں مار مار کر قتل کر ديتے ہيں- کسي کو آگ کے الاوء ميں جھونک ديا جاتا ہے تو کوئي اپنے ہي محافظ کے ہاتھوں موت کے منہ ميں چلا جاتا ہے-لاء ايند آڈر جيسي چيز پاکستان سے ناپيد ہو چکي ہے- فرعونيت کا دور دورہ ہے- اکثر يہ ديکھا گيا ہے کہ انساني خون کي ہولي کے اس کھيل کے پيچھے مقامي پيش امام کا ہاتھ رہا ہے جو مرکزي کردار ادا کرتا ہے اوروہ يہ بھول جاتا ہے کہ اسلام ميں ايک انسان کي جان بچانا پوري انسانيت کي جان بچانے کے مترادف ہےاور الزام جب تک ثابت نہيں ہوتا کوئي اسے سزا نہيںدے سکتا-ايسے نام نہاد پيش امام اسلام کو بدنام کر نے کاباعث بنے ہوئے ہيں- خون کي اس ہولي کو روکنے کے لئے ان کا کڑا محاسبہ کرنے کي ضرورت ہے- پہلے اگر ايسا کيا ہوتا تو آج ايسے وحشيانہ واقعات دہرائے نہ جاتے-
پوليس اور عيني شاہدين کے مطابق منگل کے روز مساجد سے ہونے والے اعلانات ميں گاوں کے لوگوں سے کہا گيا تھا کہ وہ يوسف اينٹوں کے بھٹے پر اکھٹا ہوں، جہاں پچيس برس کي شمع اور اس کا شوہر شہزاد مسيح غلامانہ مزدوري کرتے تھے-
تين گاوں سے ايک ہزار سے زيادہ مشتعل افراد کا ہجوم اس کمرے کے پاس پہنچا، جہاں اس مسيحي جوڑے نے پناہ لي ہوئي تھي، انہوں نے اس کمرے کي چھت توڑ کر انہيں وہاں سے نکالا- ہجوم نے اس جوڑے کو اينٹوں کي بھٹي ميں پھينکنے سے پہلے ان پر تشدد بھي کيا- اس ہجوم نے پوليس کے پانچ اہلکاروں کو بھي يرغمال بنا ليا، جو اس جوڑے کو بچانے کي کوشش کر رہے تھے- ان ديہاتيوں نے ميڈيا کے کچھ لوگوں کو بھي پکڑ ليا، اور ان کے کيمرے چھين ليے- کچھ ديہاتيوں نے اس کمرے کي چھت کو توڑ ديا اور اس جوڑے کو زبردستي باہر نکال ليا- يہ ہجوم انہيں گھسيٹتے ہوئے بھٹي کے پاس لگے گيا، جہاں بھٹي کا مالک محمد يوسف گجر اور اس کا منشي شکيل اور افضل سميت 18 ملزمان موجود تھے- مبينہ طور پر انہوں نے دہکتي ہوئي بھٹيوں ميں سے ايک کا ڈھکن ہٹايا اور اس جوڑے کو اس کے اندر پھينک ديا-
ايف آئي آر کے مطابق ’’شمع اور شہزاد دونوں کو راکھ ميں تبديل ہونے ميں زيادہ وقت نہيں لگا-‘‘( جاري ہے )
متعلقہ تحریریں:
کوباني پرقبضے کے لئے داعش دہشتگردوں کا حملہ ناکام
سعودي جيلوں ميں شيعہ مسلمانوں پر ظلم