امام حسين (ع) کي شہادت کے بعد کوفہ و شام کے حالات (حصہ دوم)
ايسے ميں علي (ع) کي بيٹي زينب کبريٰ (ع) نے آواز دي ! " اے کوفہ والو! اے مکر و دغا کے بندو ! تم رو رہے ہو خدا کرے تمہارے يہ آنسو کبھي نہ تھميں تم يونہي نالے کرتے رہو تمہاري مثال اس بوڑھي عورت کي ہے جو مضبوط دھاگا بٹ کر کھول دے اور فرياد کرے ، تم کوڑے ميں اگے ہوئے خس و خاشاک کي مانند ہو ، سيد سجاد (ع) نے فرمايا : کوفہ والو ! تم ہمارے مصائب پر روہے ہو آخر ہم پر يہ ظلم کس نے کئے ہيں ؟ ہمارے عزيزوں کو کس نے قتل کيا ہے ؟ ہم کو اسير کرکے يہاں کون لايا ہے ؟ بچوں کو بھوک سے بيتاب ديکھ کر کچھ عورتوں نے صدقے کے کھجور بچوں کي طرف پھينکے تو ام کلثوم نے ٹوکا : " خبردار صدقہ ہم آل محمد (ص) پر حرام ہے -" يہ سن کر مجمع سے گريہ وبکا کي آواز بلند ہوگئي اور پسر سعد نے حکم ديا کہ اسيروں کو مجمع سے دور کرديا جائے اور جب اہل حرم کو دربار ميں لے گئے تو امام سجاد (ع) پر نظر پڑتے ہي ابن زياد نے سوال کيا قيديوں ميں يہ جوان کون ہے ؟ اس کو زندہ کيوں چھوڑديا ؟ جواب ملا : يہ حسين (ع) کے بيٹے علي ہيں ،بيماري کے سبب چھوڑ دئے گئے ہيں ابن زياد نے کہا : کيا حسين (ع) کے بيٹے علي کو خدا نے کربلا ميں قتل نہيں کيا ؟ اب سيد سجاد خاموش کيسے رہ سکتے تھے : زنجير سنبھال کر کھڑے ہوگئے اور فرمايا : ہاں ميرا ايک اور بھائي علي تھا جس کو تيرے فوجيوں نے شہيد کرديا -ابن زياد يہ دنداں شکن جواب سن کر تلملا اٹھا اور کہا : " نہيں اسے خدا نے قتل کيا ہے " امام (ع) نے فرمايا: خدا نے سورۂ زمر( کي 42 ويں آيت ) ميں فرمايا ہے کہ اللہ موت کے وقت مرنے والے کي روح قبض کرليتا ہے اس لحاظ سے شہيدوں کي موت بھي الہي ارادۂ تکويني کے تحت ہے -ليکن ارادۂ تشريعي کے تحت نہيں ہے قاتلوں کي پيٹھ قتل کے جرم سے خالي نہيں ہوسکتي -" اب ابن زياد کے پاس کوئي جواب نہيں تھا اس نے چلا کر کہا : " يہ مجھ سے زبان لڑارہا ہے لے جاو اس کي گردن اڑادو " ( اذہبوا بہ فاضربوا عنقہ ) اب جناب زينب اٹھيں اور جناب سيد سجاد کي سپر بن گئيں : اگر اس کي گردن کاٹني ہے تو پہلے مجھے قتل کردو " امام (ع) نے پھوپھي کے جذبۂ ايثار کو ديکھتے ہوئے فرمايا پھوپھي ٹہرئے ميں اس کو جواب ديتا ہوں اور آگے بڑھ کر کہا : تو مجھے قتل کي دھمکي ديتا ہے کيا تجھے نہيں معلوم " ان القتل لنا عادۃ و کرامتنا الشہادۃ " راہ حق ميں قتل ہونا ہماري عادت اور شہيد ہونا ہماري عزت و سربلندي ہے -اس طرح اہل حرم نے کوفہ ميں اپنے مختصر قيام کے دوران کوفيوں کے دلوں ميں آگ کے وہ شعلے روشن کردئے کہ چند ہي برسوں ميں ابوعبيدہ ثقفي اور جناب مختار کي قيادت ميں وہ انقلاب برپا ہوئے کہ قاتلان حسين (ع) کے نام و نشان ہي مٹکر رہ گئے-
متعلقہ تحریریں:
واقعہ عاشورہ ، انسانيت کے لئے عظيم سرمايہ
ماہ محرم