• صارفین کی تعداد :
  • 2249
  • 10/26/2014
  • تاريخ :

داعش ميں يورپي لڑکيوں کي شموليت کے اسباب

داعش میں یورپی لڑکیوں کی شمولیت کے اسباب

لندن سے شائع ہونے والے اخبار گارڈين نے اپنے ايک رپورٹ ميں شام ميں دہشتگرد تکفيري گروہوں ميں شامل ہونے کے لئے، سامنے آنے والے محرکات کا  جائزہ ليا ہے- العالم کي رپورٹ کے مطابق ہاريٹ شرووڈ نے گارڈين کے لئے لکھي گئي اپني رپورٹ ميں، شام ميں جہاد نکاح کے بارے ميں لکھا ہے کہ ازدواج يا شادي وہ محرک ہے جس نے سيکڑوں يورپي لڑکيوں کو شام ميں دہشتگردوں کي صفوں ميں شامل ہونے کے لئے آمادہ کيا ہے- اس رپورٹ کے مطابق بہت سي چودہ سے پندرہ سالہ لڑکياں، شام کے لئے روانہ ہورہي ہيں تا کہ دہشتگرد تکفيري عناصر کے ساتھ شادي کريں اور صاحب اولاد ہوں اور جنگجوں کي تعداد ميں اضافہ کريں، يہ ايسي صورت ميں ہے کہ ان ميں سے بعض لڑکياں، ہتھياروں کو ہاتھ ميں ليکر جنگ ميں شرکت کو ترجيح ديتي ہيں- شرووڈ نے لکھا ہے کہ اس لڑکيوں کو اپني طرف راغب کرنے کا اہم ترين ہتھيار سماجي ويب سائٹيں ہيں- يہاں پر يہ نکتہ قابل اہميت ہے کہ دس فيصد لڑکياں دہشتگرد گروہوں ميں شامل ہونے کے لئے يورپ کو ترک کررہي  ہيں، اور اس درميان سب سے زيادہ فرانسيسي لڑکياں اور خواتين ہيں، جو دہشتگرد تکفيري گروہوں ميں شامل ہورہي ہيں- شرووڈ نے کہا ہے کہ حال ہي ميں 60 فرانسيسي لڑکياں دہشتگرد گروہوں ميں شامل ہونے کے بعد شام روانہ ہوئي ہيں- فرانس کي نيشنل سيکيورٹي ايجنسي کے سربراہ لوئيس کابر لولي کا خيال ہے کہ دہشتگرد تکفيري گروہوں ميں شامل ہونے کے لئے، اکثر خواتين يورپ سے شام روانہ ہوئي ہے اور انہوں نے اپنے گھروں کو چھوڑ ديا ہے اور ابھي بھي بہت سے لڑکياں بقول ان کے اپنے جہادي بھائيوں کي مدد کے لئے ان کي صفوں ميں شامل ہونے کے لئے راہوں کو تلاش کررہي ہيں- شرووڈ کا کہنا ہے کہ فرانس کے وزير داخلہ برنارڈ کازنوو نے بھي اعلان کيا ہے کہ فرانس سے ايک پانچ رکني دہشتگرد گروہ کو گرفتار کرليا گيا ہے کہ جو تکفيري عناصر کے ساتھ جہاد النکاح کے لئے فرانسيسي لڑکيوں کو جمع کرنے کے مشن پر معمور تھا- اخبار گارڈين کے رپورٹر نے کہا ہے کہ دہشتگردي کے امور ميں برطانوي ماہرين کا خيال ہے ابھي تک  50 سے زيادہ برطانوي لڑکياں دہشتگرد گروہ داعش ميں شامل ہوچکي ہيں اور ان ميں سے دس فيصد شام ميں مسلحانہ کارروائيوں ميں حصہ لے رہي ہيں، شام کا شہر الرقہ کہ جو داعش کا ايک اہم مرکز شمار  ہوتا ہے ميں موجود ہيں- زہرہ اور سلماء حلانہ سولہ سالہ جڑواں بہنيں ہيں کہ جنہوں نے  سوماليہ سے  آکر برطانيہ ميں پناہ لي تھي، جولائي کے مہينے ميں آدھي رات کو مانچسٹر ميں اپنے گھر سے فرار ہوکر، والدين کو بتائے بغير، شام ميں اپنے بھائيوں کے پاس چلي گئي ہيں، يہ دونوں بہنيں ترکي کے راستے شام ميں داخل ہوئي ہيں- ايک سماجي ويب سائٹ نے لکھا ہے کہ ان دونوں لڑکيوں نے شام ميں دہشتگرد گروہ داعش کے جنگجوں کے ساتھ شادي کرلي ہے، ار زہرہ نے ايک سماجي ويب سائٹ ميں اپنا فوٹو ايسي حالت ميں شائع کيا ہے کہ اس کے سر پر برقع ہے اور اس کے ہاتھ ميں اسلحہ اور اس کي پشت پر داعش کا پرچم نظر آرہا ہے- ايک بين لاقوامي تحقيقاتي مرکز نے لکھا ہے کہ شام ميں دہشتگرد گروہوں ميں شامل ہونے والي اکثر لڑکيوں کي عمريں 16 سے 22 سال کے درميان ہيں اور ان ميں سے اکثر لڑکياں اعلي تعليم يافتہ ہيں اور اس کا تعلق مالدار گھرانوں سے بتايا جاتا ہے اور وہ يورپي ملکوں ميں بھر پور امکانات کے ساتھ زندگي بسر کررہي تھيں-  يہ ايسے ميں ہے کہ يورپ کے کئي ملکوں کے حکام نے اپنے اپنے ملکوں ميں دہشتگرد گروہوں کي سرگرميوں پر اپني شديد تشويش کا اظہار کيا ہے اور اس دائرے ميں کئي يورپي ممالک نے اپني سيکيورٹي فورسز کو ہائي الرٹ بھي کررکھا ہے-


متعلقہ تحریریں:

عراق ميں داعش گروہ کي دہشتگردي

داعش علاقائي امن کے ليۓ خطرہ