• صارفین کی تعداد :
  • 2123
  • 10/20/2014
  • تاريخ :

داعش کي تشکيل کا مقصد

داعش کی تشکیل کا مقصد

2004ء ميں ابومصعب الزرقاوي نے عراق ميں "توحيد و جہاد" نامي دہشت گرد گروہ تشکيل ديا اور ساتھ ہي اسامہ بن لادن کے ہاتھ پر بيعت کر لي- اس طرح يہ گروہ ابومصعب الزرقاوي کي قيادت ميں عراق ميں القاعدہ کي ذيلي شاخ کے طور پر ابھر کر سامنے آيا- يہ گروہ بڑے پيمانے پر شدت پسندانہ کاروائيوں کي بدولت عراق ميں ايک انتہائي خطرناک دہشت گروہ کي صورت اختيار کر گيا- 2006ء ميں ابومصعب الزرقاوي نے اپنے ايک ويڈيو پيغام کے ذريعے "شوراي مجاہدين" کي تشکيل کا اعلان کرتے ہوئے عبداللہ رشيد البغدادي کو اس کے سربراہ کے طور پر معين کر ديا- 2006ء ميں ہي ابومصعب الزرقاوي کي ہلاکت کے بعد ابوحمزہ المہاجر اس گروہ کے نئے سربراہ کے طور پر سامنے آيا- اس سال کے آخر ميں ابوعمر البغدادي کي سربراہي ميں کئي دہشت گرد گروہوں کے اتحاد سے "دولت الاسلاميہ في العراق" کي بنياد رکھي گئي-19 اپريل 2010ء کو عراقي سيکورٹي فورسز اور امريکي فوجيوں نے ايک مشترکہ کاروائي کے دوران "الثرثار" نامي علاقے ميں موجود ايک گھر پر حملہ کيا جہاں توقع کي جا رہي تھي کہ ابوعمر البغدادي اور ابوحمزہ المہاجر موجود ہيں- شديد فائرنگ کے تبادلے کے بعد اس گھر پر ہوائي حملہ کيا گيا جس کے نتيجے ميں يہ دونوں دہشت گرد ہلاک ہو گئے- ان دونوں کي لاشيں عام لوگوں کو دکھائي گئيں- تقريبا ايک ہفتے بعد اس دہشت گرد گروہ نے انٹرنيٹ پر اپنے ايک بيانئے کے ذريعے ان دونوں دہشت گردوں کي ہلاکت کي تصديق کرتے ہوئے ابوبکر البغدادي کو اپنے نئے سربراہ کے طور پر اعلان کيا- اس کے علاوہ الناصر لدين اللہ سليمان کو وزير جنگ کے طور پر معين کيا گيا-

حال ہي ميں ايک معروف اسلامي اسکالر ڈاکٹر جان اينڈريو مورو المعروف عبد العليم اسلام نے Truth Jihad Radio کو دئيے گئے اپنے ايک انٹر ويو ميں پوچھے جانے والے سوال کے جواب ميں کہا ہے کہ داعش جيسے گروہوں کو اسلامي گروہوں کي نسبت دينا بالکل غلط اقدام ہے-خاص طور پر ايسے موقع پر کہ جب آپ جانتے ہوں کہ ان کي مالي معاونت کون کرتا ہے، ان کو سياسي سطح پر کون مدد فراہم کرتا ہے اور پھر خود اسلام ميں داعش جيسے تکفيري گروہوں کي کوئي جگہ نہيں ہے-ان کاکہنا تھا کہ مغربي قوتيں ہميشہ سے اسلامي نام نہاد جہادي گروہوں کو استعمال کرتي رہي ہيں اور ان کا استعمال اپنے مفادات اور سامراجي نظام کو تحفظ دينے کے لئے کيا جاتا رہا ہے اور آج بھي وہي کيا جا رہا ہے-

ڈاکٹر جان اينڈريو کہتے ہيں کہ اس طرح کے جہادي نام نہاد گروہوں ميں لڑنے والے افراد يہ سمجھ رہے ہوتے ہيں کہ شايد وہ اسلام کي خدمت کر رہے ہيں ليکن در اصل وہ دشمن کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہوتے ہيں اور انہيں خود بھي علم نہيں ہوتا-ان کاکہنا تھا کہ داعش کا رويہ بالکل غيرا سلامي ہے،انہوں نے کہا کہ داعش کے دہشت گرد دہشت گردي اور جرم کو فلم بندي کرتے ہيں اور مزے سے نشر کرتے ہيں جو کہ خود ايک غير اسلامي فعل ہے،وہ انتہائي فخرکرتے ہيں اپنے جرائم اور ظالمانہ کاروائيوں پر ، اور يہ واقعاً اسلام نہيں ہے بلکہ اسلام کي تعليمات ميں ايسا کہيں نہيں ملتا ہے-


متعلقہ تحریریں:

عراق ميں داعش گروہ کي دہشتگردي

داعش علاقائي امن کے ليۓ خطرہ