واقعہ غدير کيا ہے ؟(حصہ دوم)
مذکورہ بحث سے يہ بات اجمالاً معلوم ہوجاتي ہے کہ يہ آيہ شريفہ بے شمار شواہد کي بنا پر امام علي عليہ السلام کي شان ميں نازل ہوئي ہے، اور اس سلسلہ ميں (شيعہ کتابوں کے علاوہ) خود اہل سنت کي مشہور کتابوں ميں وارد ہونے والي روايات اتني زيادہ ہيں کہ کوئي بھي اس کا انکار نہيں کرسکتا-
ان مذکورہ روايات کے علاوہ بھي متعددروايات ہيں جن ميں وضاحت کے ساتھ بيان ہوا ہے کہ يہ آيت غدير خم ميں اس وقت نازل ہوئي کہ جب پيغمبر اکرم (ص) نے خطبہ ديا اور حضرت علي عليہ السلام کو اپنا وصي و خليفہ بنايا، ان کي تعداد گزشتہ روايات کي تعداد سے کہيں زيادہ ہے، يہاں تک محقق بزرگوار علامہ اميني غ؛ نے کتابِ ”الغدير“ ميں 110/ اصحاب پيغمبر سے زندہ اسناد اور مدارک کے ساتھ نقل کيا ہے، اسي طرح 84/ تابعين اور مشہور و معروف360/ علماو دانشوروں سے اس حديث کو نقل کيا ہے-
اگر کوئي خالي الذہن انسان ان اسناد و مدارک پر ايک نظر ڈالے تو اس کو يقين ہوجائے گا کہ حديث غدير يقينا متواتر احاديث ميں سے ہے بلکہ متواتر احاديث کا بہترين مصداق ہے، اور حقيقت يہ ہے کہ اگر کوئي شخص ان احاديث کے تواتر ميں شک کرے تو پھر اس کي نظر ميں کوئي بھي حديث متواتر نہيں ہوسکتي-
ہم يہاں اس حديث کے بارے ميں بحث مفصل طور پر بحث نہيں کرسکتے ، حديث کي سند اور آيت کي شان نزول کے سلسلہ ميں اسي مقدار پر اکتفاء کرتے ہيں، اور اب حديث کے معني کي بحث کرتے ہيں، جو حضرات حديث غدير کي سند کے سلسلہ ميں مزيد مطالعہ کرنا چاہتے ہيںوہ درج ذيل کتابوں ميں رجوع کرسکتے ہيں:
1- عظيم الشان کتاب الغدير جلد اول تاليف ،علامہ اميني عليہ الرحمہ-
2- احقاق الحق، تاليف ،علامہ بزرگوار قاضي نور اللہ شوستري، مفصل شرح کے ساتھ آيت اللہ نجفي، دوسري جلد ، تيسري جلد، چودھويں جلد، اور بيسوي جلد-
3- المراجعات ،تا ليف ،مرحوم سيد شرف الدين عاملي-
4- عبقات الانوار ، تاليف عالم بزرگوار مير سيد حامد حسين ہندي (لکھنوي) -
5- دلائل الصدق ، جلد دوم، تاليف ،عالم بزرگوار مرحوم مظفر- (ختم شد)
متعلقہ تحریریں:
غدير کا واقعہ لافاني و جاوداني ھے
واقعہ غدير کا پيش خيمہ