حديث غدير کي سنديت و دلالت (حصہ دوم)
پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا: کيا تم گواہي ديتے ہو کہ اس پوري دنيا کا معبود ايک ہے اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے؟ اور جنت و جہنم وآخرت کي ابدي زندگي ميں کوئي شک نہيں ہے؟
سب نے کہا کہ صحيح ہے ہم گواہي ديتے ہيں-
اس کے بعد رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا: اے لوگو!ميں تمھارے درميان دو اہم چيزيں چھوڑ ے جا رہا ہوں، ميں ديکھوں گا کہ تم ميرے بعد، ميري ان دونوں يادگاروں کے ساتھ کيا سلوک کرتے ہو؟
اس وقت ايک شخص کھڑا ہوا اور بلند آواز ميں سوال کيا کہ ان دو اہم چيزوں سے آپ کي کيا مراد ہے؟
پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا: ايک اللہ کي کتاب ہے جس کا ايک سرا اللہ کي قدرت ميں ہے اور دوسرا تمھارے ہاتھوں ميں ہے اور دوسرے ميري عترت اور اہلبيت ہيں، اللہ نے مجھے خبر دي ہے کہ يہ ہرگز ايک دوسرے جدا نہ ہوں گے-
ہاں اے لوگو! قرآن اور ميري عترت سے سبقت نہ لينا اور ان دونوں کے حکم کي تعميل ميں بھي کوتاہي نہ کرنا، ورنہ ہلاک ہو جاو گے-
اس کے بعد حضرت علي عليہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر اتنا اونچا اٹھايا کہ دونوں کي بغلوں کي سفيدي، سب کو نظر آنے لگي پھر علي (ع) کو سب لوگوں سے متعارف کرايا-
اس کے بعد فرمايا: کون ہے جو مومنين پر ان کے نفوس سے زيادہ حق تصرف رکھتا ہے ؟
سب نے کہا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہيں-
پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا : اللہ ميرا موليٰ ہے اور ميں مومنين کا مولا ہوں اور ميں ان کے نفسوں پر ان سے زيادہ حق تصرف رکھتا ہوں-
ہاں اے لوگو!” من کنت مولاہ فہٰذا علي مولاہ اللہم وال من والاہ و عاد من عاداہ و احب من احبہ و ابغض من ابغضہ وانصر من نصرہ واخذل من خذلہ و ادر الحق معہ حيث دار -
ترجمہ: جس جس کا ميں موليٰ ہوں اس اس کے يہ علي (ع) مولا ہيں، [4] اے اللہ تو اسکو دوست رکھ جو علي (ع) کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو علي (ع) کو دشمن رکھے، اس سے محبت کر جو علي (ع) سے محبت کرے اور اس پر غضبناک ہو جو علي (ع) پر غضبناک ہو، اس کي مدد کرجو علي (ع) کي مدد کرے اور اس کو رسوا کر جو علي (ع) کو رسوا کر ے اور حق کو اسي موڑ دے جدھر علي (ع) مڑتے ہيں [5]-
اوپر لکھے خطبہ [6] کو اگر انصاف کے ساتھ ديکھا جائے تو اس ميں جگہ جگہ پر حضرت علي عليہ السلام کي امامت کي دليليں موجو د ہيں (ہم جلد ہي اس قول کي وضاحت کريں گے ) (جاري ہے)
حوالہ جات:
[4] پيغمبر اسلام صلياللہ عليہ وآلہ وسلم نے اطمينان کے لئے اس جملے کو تين بار کہا تاکہ بعدميں کوئي مغالطہ نہ ہو-
[5] يہ پوري حديث غدير يا فقط اس کا پہلا حصہ يافقط دوسرا حصہ ان مسندوں ميں آيا ہے- (الف)مسند احمد ابن حنبل ص/ 256( ب) تاريخ دمشق ج/ 42 ص/ 207، 208، 448 ( ج)خصائص نسائي ص/ 181 ( د)المجملکبير ج/ 17 ص/ 39 ( ہ) سنن ترمذي ج/ 5 ص/ 633( و) المستدرک الصحيحين ج/ 132ص/ 135 ( ز) المعجم الاوسط ج/ 6 ص/ 95 ( ح) مسند ابي يعلي ج/ 1 ص / 280،المحاسن والمساوي ص/ 41( ط)مناقب خوارزمي ص/ 104،اور ديگر کتب-
[6] اسخطبہ کو اہل سنت کے بہت سے علماء نے اپني کتابوںميں ذکرکيا ہے- جيسے (الف) مسند احمد ج/ 1، ص/ 84، 88، 118، 119، 152، 332، 281، 331،اور370( ب) سنن ابن ماجہ ج/ 1،ص/ 55، 58 ( ج) المستدرک الصحيحين نيشاپوريج/ 3 ص/ 118، 613( ج) سنن ترمزي ج/ 5 ص/ 633( د) فتح الباري ج/ 79 ص/ 74 ( ہ) تاريخ خطيب بغدادي ج/ 8 ص/ 290 ( و) تاريخ خلفاء،سيوطي/ 114،اورديگر کتب-
متعلہ تحريريں:
خطبہ غدير کا اردو ترجمہ
خطبہ غدير کے چند اھم نکات
کيا ہم بھي عيد غدير کي اہميت کو اجاگر کرنے ميں اپنا حصّہ ڈال سکتے ہيں ؟