حديث غدير کي سنديت و دلالت
اس حديث کي حقيقت کو ظاہرکرنے کے لئے ضروري ہے کہ سند اور دلالت دونوں کے ہي بارے ميں معتبر حوالوں کے ذريعہ بات کي جائے- غدير خم کا منظر : 10 ھجري کے آخري ماہ (ذي الحجہ) ميں حجة الوداع کے مراسم تمام ہوئے اور مسلمانوں نے رسول اکرم سے حج کےاعمال سيکھے- حج کے بعد رسول اکرم نے مدينہ جانے کي غرض سے مکہ کو چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے، قافلہ کو کوچ کا حکم ديا- جب يہ قافلہ جحفہ( 1) سے تين ميل کے فاصلے پر رابغ [2] نامي سرزمين پر پہنچا تو غدير خم کے مقام پر جبرئيل امين وحي لے کر نازل ہوئے اور رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ و سلم کو اس آيت کے ذريعے خطاب کيا <يا ايہا الرسول بلغ ماانزل اليک من ربکوان لم تفعل فما بلغت رسالتہ واللہ يعصمک من الناس> [3] اے رسول! اس پيغام کو پہنچا ديجئے جو آپ کے پروردگار کي طرف سے آپ پر نازل ہو چکا ہے اور اگر آپ نے ايسا نہ کيا تو گويا رسالت کا کوئي کام انجام نہيں ديا؛ اللہ آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا-
آيت کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے کوئي ايسا عظيم کام رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سپرد کيا ہے جو پوري رسالت کے ابلاغ کے برابر ہے اور دشمنوں کي مايوسي کا سبب بھي ہے- اس سے بڑھ کر عظيم کام اور کيا ہوسکتا ہے کہ ايک لاکھ سے زيادہ افراد کے سامنے حضرت علي عليہ السلام کو خلافت و وصايت و جانشيني کے منصب پر معين کريں؟ لہٰذا قافلہ کو رکنے کا حکم ديا گيا، جو لوگ آگے نکل گئے تھے وہ پيچھے کي طرف پلٹے اور جو پيچھے رہ گئے تھے وہ آکر قافلہ سے مل گئے- ظہرکا وقت تھا اورگرمي اپنے شباب پر تھي؛ حالت يہ تھي کہ کچھ لوگ اپني عبا کا ايک حصہ سر پر اور دوسرا حصہ پيروں کے نيچے دبائے ہوئے تھے- پيغمبر (ص) کے لئے ايک درخت پر چادر ڈال کر سائبان تيار کيا گيا اور آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اونٹوں کے کجاوں سے بنے ہوئے منبر کي بلندي پر کھڑے ہو کر، بلند و رسا آواز ميں ايک خطبہ ارشاد فرمايا جس کا خلاصہ يہ ہے-
غدير خم ميں پيغمبر کا خطبہ :
حمد و ثناءاللہ کي ذات سے مخصوص ہے- ہم اسي پر ايمان رکھتے ہيں، اسي پر توکل کرتے ہيں اور اسي سے مدد چاہتے ہيں- ہم برائي اور برے کاموں سے بچنے کے لئے اس اللہ کي پناہ مانگتے ہيں، جس کے علاوہ کوئي دوسرا ہادي و راہنما نہيں ہے- اور جس نے بھي گمراہي کي طرف راہنمائي کي وہ اس کے لئے نہيں تھي- ميں گواہي ديتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئي معبود نہيں ہے،اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے-
ہاں اے لوگو! وہ وقت قريب ہے، جب ميں دعوت حق پر لبيک کہتا ہوا تمھارے درميان سے چلا جاوں گا! تم بھي جواب دہ ہو اور ميں بھي جواب دہ ہوں-
اس کے بعد آپنے فرمايا: ميرے بارے ميں تمہارا کيا خيال ہے؟ کيا ميں نے تمہارے بارے ميں اپني ذمہ داري پوري کي ہے؟
يہ سن کر پورے مجمع نے رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي خدمات کي تصديق کرتے ہوئے کہا: ہم گواہي ديتے ہيں کہ آپ نے بہت زحمتيں اٹھائيں اور اپني ذمہ داريوں کو پورا کيا ؛اللہ آپ کو اس کا بہترين اجر دے- (جاري ہے)
حوالہ جات:
[1] يہ جگہ احرام کے ميقات کي ہے اور ماضي ميں يہاںسے عراق،مصر اور مدينہ کے راستے جدا ہو جاتے تھے-
[2] رابغ اب بھي مکہ اورمدينہ کے بيچ ميں واقع ہے-
[3] سورہ مائدہ آيہ/ 67
متعلہ تحریریں:
خطبہ غدير کا اردو ترجمہ
خطبہ غدير کے چند اھم نکات