فلسفہ اور اسرار حج کيا ہيں؟ ( پانچواں حصّہ )
”حج“ ايک اہم انسان ساز عبادت ہے
حج کا سفر در اصل بہت عظيم ہجرت ہے، ايک الٰہي سفر ہے اور اصلاح نيز جہاد اکبر کا وسيع ميدان ہے-
اعمال حج؛ حقيقت ميں ايک ايسي عبادت ہے جس ميں جناب ابراہيم اور ان کے بيٹے جناب اسماعيل اور ان کي زوجہ حضرت ہاجرہ کي قربانيوں اور مجاہدت کي ياد تازہ ہوتي ہے ، اور اگر ہم اسرار حج کے بارے ميں اس نکتہ سے غافل ہو جائيں تو بہت سے اعمال ايک معمہ بن کر رہ جائيں گے ، جي ہاں! اس معمہ کو حل کرنے کي کنجي انھيں عميق مطالب پر توجہ دينا ہے-
جس وقت ہم سر زمين منيٰ کي قربانگاہ ميں جاتے ہيں تو تعجب کرتے ہيں، يہ اس قدرقرباني کس لئے؟ کيا حيوانات کي قرباني عبادت ہو سکتي ہے؟!
ليکن جس وقت قرباني کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہيم عليہ السلام کو ياد کرتے ہيں کہ انھوں نے اپنے نور نظر ،پارہ جگر اور اپنے ہر دل عزيز بيٹے کو راہ خدا ميں قربان کر ديا، جو ايک سنت ابراہيمي بن گيا اور مني ميں اس ياد ميں قرباني ہونے لگي تو اس کام کا فلسفہ سمجھ ميں آ جا تا ہے-
قرباني کرنا خدا کي راہ ميں تمام چيزوں سے گزرنے کا راز ہے، قرباني کرنا يعني اس بات کا ظاہر کرنا ہے کہ اس کا دل غير خدا سے خالي ہے،حج کے اعمال سے اسي وقت ضروري مقدار ميں تربيتي فائدہ اٹھايا جا سکتا ہے جب ذبح اسماعيل اور قرباني کے وقت اس باپ کے احساسات کو مد نظر رکھا جائے، اور وہي احساسات ان کے اندر جلوہ گر ہو جائيں-(1)
جس وقت ہم ”جمرات“ کي طرف جاتے ہيں ( يعني وہ تين مخصوص پتھر جن پر حجاج کو کنکري مارنا ہوتي ہيں، اور ہر بار سات کنکر مارنا ہوتي ہيں) تو ہمارے سامنے يہ سوال پيش آتا ہے کہ اس مجسمہ پر سنگ باري کا کيا مقصد ہے؟ اور اس سے کيا مشکل حل ہوسکتي ہے؟ ليکن جس وقت ہم ياد کرتے ہيں کہ يہ سب بت شکن قہر مان جناب ابراہيم عليہ السلام کي ياد ہے ، آپ کي راہ ميں تين بار شيطان آيا تاکہ آپ کو اس عظيم ”جہاد اکبر“سے رو ک دے يا شک و شبہ ميں مبتلا کر دے ليکن ہر بار توحيد کے علمبر دار نے شيطان کو پتھر مار کر دور بھگا ديا،لہٰذا اگر اس واقعہ کو ياد کريں تو پھر ”رمي جمرات“ کا مقصد سمجھ ميں آ جاتا ہے-
رمي جمرات کا مقصد يہ ہے کہ ہم سب جہاد اکبر کے موقع پر شيطاني وسوسوں سے روبرو ہوتے ہيں اور جب تک ان کو سنگسار نہ کريں گے اور اپنے سے دور نہ بھگائيں گے تواس پر غالب نہيں ہو سکتے- ( جاري ہے )
متعلقہ تحریریں:
اعمال حج كے بارے ميں
طواف اور نماز طواف كے بارے ميں