• صارفین کی تعداد :
  • 1468
  • 8/13/2014
  • تاريخ :

پاکستان کا آزادي مارچ

پاکستان کا آزادی مارچ

پاکستان ميں اس سال کا جشن آزادي کچھ اور ہي رنگ ميں منايا جا رہا ہے - پچھلے سال ہونے والے  اليکشن کے مشکوک نتائج ان دنوں ملک بھر ميں زير بحث ہيں - تحريک انصاف کے سربراہ عمران خان ، عوامي تحريک  کے سربراہ مولانا طاہرالقادري ، مسلم ليک ق ليگ کے چوہدري برادران اور عوامي مسلم ليگ کے سربراہ شيخ رشيد  حاليہ دنوں ميں نواز شريف کي حکومت کو گرانے  کے ليۓ تيار نظر آ رہے ہيں - پاکستان کي نوجوان نسل ميں عمران خان کي  پائي جانے والي مقبوليت کي وجہ سے 14 اگست کے دن ہونے والا لانگ مارچ کوئي بھي صورت اختيار کر سکتا ہے - آخري موقع پر وزيراعظم پاکستان مياں محمد نواز شريف نے قوم سے خطاب کرتے ہوۓ ، مسئلے کے حل  کے ليۓ چند تجاويز پيش تو کيں مگر شايد ان کا يہ عمل قدرے دير سے سامنے آيا ہے جسے عمران خان نے ٹھکراتے ہوۓ ، وزير اعظم کے فوري اسعتعفے کا مطالبہ کيا ہے -

پاکستان ميں 14 اگست کي تاريخ جوں جوں قريب آتي جا رہي ہے اس ملک کے سياسي بحران کي شدت و حدّت ميں اضافہ ہوتا جا رہا ہے- آزادي اور انقلاب مارچ کرنے والے سياستدانوں کے ساتھ ساتھ حکمرانوں نے بھي لاہور ميں پڑاۆ ڈال ديا ہے اور مارچ کرنے اور اسے روکنے اور ناکام بنانے کي حکمت عملي پر غور و خوص کيا جا رہا ہے اور کارکنوں کي پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھي شروع ہو چکا ہے - قومي اسمبلي ميں جمہوريت اور آئين کي بالادستي کے ليے ايک قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لي گئي ہے - قرارداد ميں کہا گيا ہے کہ پاکستان قائداعظم محمد علي جناح کي کوششوں سے جمہوري اصولوں اور ووٹ کي بنياد پر قائم ہوا موجودہ حکومت اور پارليمنٹ جمہوريت کي بالا دستي کے لئے آئين کے مطابق کام کر رہي ہے- ملک کي ترقي اور سلامتي جمہوريت سے وابستہ ہے-

 پچھلے اليکشن کے بعد ايسا لگتا تھا کہ پاکستان کے وزيراعظم مياں نوازشريف آئندہ پانچ سال تک سکون سے حکومت کر ليں گے- مہنگائي ہو، بجلي کي لوڈ شيڈنگ ہو يا حکومت کي دوسري بدانتظامياں ہوں، ان سب کا محاسبہ اگلے اليکشن ميں کر ليا جا ئے گا - ليکن بھلا ہو عمران خاں کا، جنہوں نے سونامي، لانگ مارچ اور پھر آزادي مارچ سے حکومت کو ہلا کر رکھ ديا- مگر اب تک بہت سے لوگ يہ سمجھنے سے قاصر ہيں کہ وہ چاہتے کيا ہيں؟ ان کا نعرہ ہے، اس حکومت کا خاتمہ- مگر يہ خاتمہ کيسے ہو گا؟ کيا عمران خاں اور ان کے دس لاکھ کے ہجوم کے کہنے سے مياں نواز شريف استعفيٰ دے ديں گے؟ جبکہ يہاں صرف مياں نواز شريف کا معاملہ ہي نہيں ہے وہ تو تمام صوبائي حکومتيں بھي ختم کرنا چا ہتے ہيں؟ کيا وہ صوبائي حکومتيں استعفے ديں گي؟ اگر يہ سب کچھ بھي ہو جاتا ہے اور عمران خاں کي مرضي کا نيا اليکشن کميشن بھي بن جاتا ہے اور نئے اليکشن بھي ہو جاتے ہيں تو کيا اس اليکشن ميں مياں نواز شريف اور ان کي جماعت سياسي شہيد بن کر سامنے نہيں آ ئے گي؟ کيا وہ انتخابات کے نتائج کو تسليم کر ليں گے؟ اور دوبارہ انتخابات کا مطالبہ نہيں کريں گے؟

پاکستان کو اس وقت تو آزادي مارچ کا مسئلہ ہے، جس ميں علامہ طاہر القادري بھي شامل ہو گئے ہيں- علامہ اور ان کے پيروکاروں کے شامل ہو نے کے بعد اندازہ لگايا جا سکتا ہے کہ اسلام آباد ميں اسٹيج کيا جانے والا دھرنا کتنا بڑا ہو گا- عمران خان شروع سے کہہ رہے ہيں کہ اسلام آباد ميں ان کا دھرنا پر امن ہو گا- وہ جمہوريت کي بساط لپيٹنا نہيں چاہتے- وہ صرف اسلام آباد ميں اس وقت تک دھرنا دينا چاہتے ہيں جب تک يہ حکومت چلي نہ جا ئے- ايسے ميں حکومت کا امتحان بھي تو ہے - آخر حکومت ان دھرنوں سے کيسے نبٹے گي؟ ايک راستہ تو اس نے اختيار کر ليا ہے اور وہ ہے رکاوٹيں کھڑي کر نے کا- اور لاہور ميں علامہ طاہر القادري کا يوم شہدءا ناکام بنانے کے لئے ماڈل ٹاۆن جانے والے راستوں پر کنٹينرز کھڑے کر ديئے گئے تھے- ان کنٹينروں نے صرف علامہ صاحب کے گھر اور سيکرٹريٹ کا راستہ ہي بند نہيں کيا تھا بلکہ ماڈل ٹاۆن، فيصل ٹاون، جوہر ٹاون، ٹاون شپ حتيٰ کہ گارڈن ٹاون تک کے بعض علاقوں کے لوگوں کو بھي ان کے گھروں ميں بند کر ديا تھا- اب اگر عمران خاں کا راستہ روکنے کے لئے بھي يہي طريقہ اختيار کيا گيا تو اور بھي انتشار پھيلے گا- اب ديکھنا يہ ہے کہ اس انتشار سے کون فائدہ اٹھاتا ہے؟ اس لئے کہ امريکہ بہادر کي نظريں پاکستان کے حالات پر ہيں اور پاکستان کے معاملے ميں وہ زيادہ محتاط ہے کيونکہ پاکستان ايٹمي طاقت ہے اور اس کا طويل المدت منصوبہ ہے جس پر کام کرتے چلے آ رہے ہيں- اب ديکھنا اور جانچنا ضروري ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادري کے لانگ مارچ کے کيا اثرات مرتب ہوسکتے ہيں؟ اگر اثرات وہي مرتب ہوں جو امريکہ چاہتا ہے تو اُن کو اس سے گريز کرنا چاہئے البتہ حکومت کيلئے ضروري ہے کہ وہ عمران خان کے جائز خدشات دور کرے- يہ خدشات اليکشن کے حوالے سے ہوں يا دوسرےحوالے سے- يہ بھي ضروري ہے کہ وہ اپنا طرزِحکومت بہتر بنائے اور ملک ميں فرقہ وارانہ دہشتگردي کے سدباب کيلئے ٹھوس اقدامات کرے اور اس ملک کے عوام کو دہشتگردوں سے تحفظ فراہم کرے اور دہشتگردوں کے نيٹ ورک کو توڑ دے- جنہوں نے اس ملک کے عوام کي زندگي کو اجيرن بنا ديا ہے اوروہ لوگ جو اُن کے طرزِحکومت پر سوال اٹھا رہے ہيں وہ يا تو خاموش ہو جائيں يا پھر حکومت کا ساتھ ديں- بعض لوگوں کا خيال ہے کہ مياں محمد نواز شريف کا اقتصادي پروگرام بہت اچھا ہے اس سے پاکستان ترقي کي راہ پر گامزن ہوسکتا ہے بشرطيکہ ملک ميں امن وامان ہو اور طرز حکمراني کے حوالے سے معترضيں کے اعتراضات دور کرديئے جائيں تو يہ حکومت اپني مدت پوري کرسکتي ہے-

 


متعلقہ تحریریں:

پاکستان ميں جمعۃ الوداع پر يوم سوگ کا سرکاري اعلان

امن پائپ لائن پروجيکٹ پر عملدرآمد ميں پاکستان کي بہانہ جوئي