• صارفین کی تعداد :
  • 10330
  • 3/20/2014
  • تاريخ :

موٹاپا(حصہ دوم)

موٹاپا(حصہ دوم)

ان پيمانوں سے اندازہ کرنے کےليے عام نشان فراہم ہوتے ہيں ليکن تمام لوگوں ميں بيماري کےليے خطرات ميں 20/ 22 کلوگرام/ ايم 2 کي بي ايم آئي سطحوں سے رفتہ رفتہ اضافہ ہوتاہے، جنہيں صحتي پيچيدگيوں کا زيادہ خطرہ ہے-

دنيا بھر ميں ذيابطس کے تقريباً 58 في صد، دل کي بيماري 21 في صداور کچھ قسم کے کينسر کے 8 تا 42 في صد واقعات 21 کلوگرام/ ايم 2 سے زيادہ بي ايم آئي کي وجہ سے ہوتے ہيں- اگرچہ بي ايم آئي سے موٹے پن کا ايک مناسب پيمانہ فراہم ہوتاہے تاہم ضرورت سے زيادہ وزن اور موٹاپے کے ليے اصول ترقي پذير ملکوں ميں الگ الگ ہے- ايشيايي ملکوں کے ليے ايک کم بي ايم آئي حد کي سفارش کي گئي ہے- اس سے محض خطے ميں موٹاپے کے مسئلے ميں اضافہ ہوگا-

موٹاپے کا تعلق کچھ حد تک جسم ميں توانائي کے توازن سے بھي ہے- ہمارے جسم کو عام طور سے روزانہ تقريبا 1600 کيلوريز کي ضرورت ہوتي ہے- جو خوراک جو ہم کھاتے ہيں، وہ کيلوريز ميں بدل جاتي ہے اور اس کا استعمال جسم کے مختلف عمل کے ليے ہوتاہے- جب کھائي گئي خوراک کيلوريز کے لحاظ سے زيادہ ہوجاتي ہے تو جسم ان کيلوريز کو چربي بدلنا شروع کر ديتاہے- تقريباً 9 کيلوريز سے ايک گرام چربي بنتي ہے- طبي لحاظ سے، چربي کے خليے ايڈيپوز کہلاتے ہيں، جو عام طور سے جلد کے نيچے جمع ہوجاتے ہيں- خوراک کے کنٹرول کا پورا عمل دماغ کے ذريعے چلتاہے- ہارموں کي وجہ سے بھي موٹاپا ہوتاہے- پورٹي، مينو پوز اور حاملہ ہونے جيسے حالات ميں لوگوں کو زيادہ وزن ہوجانا عام بات ہے-

اگرچہ موٹاپے کي زيادہ تر وجہ ہمارا بدلتا ہوا طرز زندگي ہے تاہم سائنسداں موٹاپے کے ليے جينياتي بنياد تلاش کر رہے ہيں- وہ جين يا جين پولي مورفزم کے بارے ميں تحقيق کر رہے ہيں، جسے کچھ لوگ موٹاپے کي وجہ بتاتے ہيں- گزشتہ کچھ برسوں ميں کچھ اہم معلومات کي گئي ہيں- اس طرح کي ايک اہم معلومات سفيد ايڈيپوز ٹشو( ڈبليو اے ٹي) کے عمل کو از سر ن، سمجھنا ہے- يہ روايتي نظريہ کہ ڈبليو اے ٹي محض چربي جمع کرنے کا ايک ڈپو ہے، اس اعتراف سے بدل گيا ہے کہ يہ ايک اينڈوسرين عضو ہے- يہ ايک ہارمون، ليپٹن کے اجراء کے ذريعے دماغ اور محيطي نشوز سے رابطہ قائم کرتاہے-

تاہم ايک مکتب فکر کا خيال ہے کہ يہ جينيات، کھانے پينے کا غير معمولي روي، محنت مشقت کي کمي اور ثقافتي اثرات نيز دماغي نظام جيسے عناصر کا ايک امتزاج ہے جنہيں ابھي تک پوري طرح سمجھا نہيں گيا ہے اور ان کي وجہ سے موٹاپا ہوتاہے- کم خوراک کھانے، دواۆں، سرجري اور وزن کم کرنے کے مہنگے پروگراموں کو موٹاپے کے ممکنہ حل کے طور پر پيش کيا جا رہاہے- ليکن ماہريں تغذيہ اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ايک متوازن خوراک شايد چاق و چوبند اور تندرست رہنے نيز موٹاپا دور رکھنے کا واحد پائيدار طريقہ ہے-(ختم شد)


متعلقہ تحریریں:

تناۆ اور موٹاپا